بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رخصتی کے وقت کیا کیا چیزیں دی تھی؟ اور ان چیزوں کو جہیز کہنا درست ہے؟


سوال

حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی پر ان کے  والد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں کیا چیزیں دی تھیں؟ اور کیا ان چیزوں کو جہیز کہنا درست ہوگا؟

جواب

 سنن النسائی کی  ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلي اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں ایک پلو دار چادر، ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ دیا تھا جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔ مسند احمد کی  ایک روایت میں ہے کہ ایک لحاف، ایک گدّا، دو چکیاں، ایک مشکیزہ اور دو مٹی کے گھڑے جہیز میں عطا فرمائے تھے، مواہبِ لدنیہ کی روایت میں ایک چارپائی کا بھی ذکر ملتا ہے۔

واضح رہے کہ شریعت میں جہیز نکاح کا کوئی لازمی جز نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں نکاح کے وقت لڑکی کو جہیز دینے کا عمومی رواج نہیں تھا، صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی میں کچھ سامان دینے کا ذکر ملتا ہے، لیکن اس کے بارے میں بھی علماء کی دو آراء ہیں: 

بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ سامان ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے اپنی صاحبزادی کو عطا فرمایا تھا۔  جب کہ دوسرے بعض کی علماء کی رائے یہ ہے کہ   یہ سامان ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مال سے اور ان کے پیسوں سے خریدا تھا، اور چوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سرپرست بھی تھے،  اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مال سے جہیز کا سامان خرید کر ان کے گھر میں ضرورت  کے سامان کا انتظام فرمایا تھا۔

اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے بھی سامان خرید کر اپنی صاحبزادی کو عطا فرمایا ہو تو روایات میں جن چیزوں کا ذکر ملتا ہے وہ صرف گھریلو ضرورت کی وہ چیزیں تھیں ،  جو روز مرہ کے استعمال کی تھی، اس لیے علماء فرماتے ہیں کہ باپ اپنی خوشی سے بیٹی کو رخصتی کے وقت اپنی حیثیت کے مطابق اگر کچھ ضرورت کا سامان دینا چاہے تو شرعاً جائز ہے، لیکن اس کو  لڑکی والوں پر لازم سمجھنا یا  اس کا مطالبہ کرنا اور ان پر جہیز کا بوجھ ڈالنا شرعا درست نہیں۔

سنن النسائی میں ہے:

"عن علي، رضي الله عنه قال: جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة في خميل وقربة ووسادة حشوها إذخر".

أخرجه النسائي في كتاب النكاح، في جهاز الرجل ابنته(6/ 135) برقم (3384)، ط.  مكتب المطبوعات الإسلامية - حلب، الطبعة الثانية : 1406 =1986)

مسند احمد میں ہے:

"عن علي:   أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما زوجه فاطمة بعث معه بخميلة ووسادة من أدم حشوها ليف، ورحيين وسقاء وجرتين ".

أخرجه الإمام أحمد في مسنده (2/ 191) برقم (819)، ط. مؤسسة الرسالة، الطبعة  الأولى:1421 هـ =2001 م)

مواہب لدنیہ میں ہے:

"تزوجنى فاطمة؟ قال: «وعندك شىء؟» قلت: فرسى وبدنى، فقال: «أما فرسك فلا بد لك منها، وأما بدنك فبعها»، فبعتها بأربعمائة درهم وثمانين، فجئته بها، فوضعها فى حجره، فقبض منها قبضة، وقال: «أى بلال، ابتع لنا بها طيبا» ، وأمرهم أن يجهزوها، فجعل لها سرير مشرّط، ووسادة من أدم حشوها ليف".

(المواهب اللدنية بالمنح المحمدية: غزوة قرقرة الكدر (1/ 234)، ط. لمكتبة التوفيقية، القاهرة- مصر)

امداد الاحکام میں ہے:

"باپ کا اپنی لڑکی کو نکاح کے وقت جہیز دینا سنتِ نبویہ سے ثابت ہے، رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ زہراء رضی اللہ عنہا کو شادی کے وقت جہیز دیا ہے"۔

(امداد الاحکام: كتاب النكاح (2/ 371)، ط.   مکتبہ دار العلوم، کراچی)

معارف الحدیث میں ہے:

"ہمارے ملک میں اکثر اہلِ علم اس حدیث کا مطلب یہی سمجھتے اور بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ چیزیں (چادر، مشکیزہ، تکیہ) اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے موقع پر جہیز کے طور پر دی تھیں، لیکن تحقیقی بات یہ ہے کہ اس زمانہ مین عرب میں نکاح شادی کے موقع پر لڑکی کو جہیز کے طور پر کچھ سامان دینے کا رواج بلکہ تصور بھی نہیں تھا اور جہیز کا لفظ بھی استعمال نہیں ہوتا تھا، اس زمانہ کی شادیوں کے  سلسلے میں کہیں اس کا ذکر نہیں آتا، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ حضور ﷺ کی دوسری صاحبزادیوں کے نکاح کے سلسلے میں بھی کہیں کسی قسم کے جہیز کا ذکر نہیں آیا، حدیث کے لفظ جھزکے معنی اصطلاحی جہیز دینے کے نہیں، بلکہ ضرورت کا انتظام اور بندوبست کرنے کے ہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے حضور ﷺ نے  ان چیزوں کا انتظام حضرت علی رضی اللہ کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے ان ہی کی طرف سے اور ان ہی کے پیسوں سے کیا تھا؛  کیوں کہ یہ ضروری چیزیں ان کے گھر میں نہیں تھیں، روایات سے اس کی پوری تفصیل معلوم ہوجاتی ہے، بہر حال یہ اصطلاحی جہیز نہیں تھا۔"

(معارف الحدیث: نکاح وازوداج اور اس کے تعلقات (7/ 461)، ط.  دار الاشاعت)

فقظ واللہ ٲعلم


فتوی نمبر : 144504100884

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں