ایچ بی ایل بینک کی ایپلیکیشن ہے، اس میں دس ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک بیلنس رکھنے پربغیر کسی سودی ایگرمنٹ کے کیش ریوارڈ دیتے ہیں ، کیا یہ ریوارڈ لینا جائز ہے؟ ایزی پیسہ اور جیز کیش میں تو سبکرایب کریں گے تو پیسے ملتے ہیں، لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے۔
کسی بھی ادارے کی ایپلیکیشن میں جو بیلینس رکھا جاتا ہے اُس کی حیثیت قرض کی ہوتی ہے، گویا صارف نے اپنا بیلینس ادارے کو قرض دیا ہے اور قرض کے عوض جو مشروط یا معروف نفع دیا جاتا ہے وہ سود ہوتا ہے۔
لہذا مذکورہ ایپلیکیشن میں بیلینس رکھ کر اس پر ریوارڈ (انعام) وصول کرنا سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے۔
سائل نے سوال میں لکھا کہ "بغیر کسی سودی ایگرمنٹ کے کیش ریوارڈ دیتے ہیں" اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ’’یہ منافع مشروط نہیں ہے، بلکہ بینک کی طرف سے تحفہ ہےـ‘‘، اس لیے کہ بینک کی طرف سے لوگوں کو اس آفر کی اطلاع کا کیا جانا اور اس بنیاد پر ایپلیکیشن میں بیلنس وصول کرنا شرط ہی کے قائم مقام ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر بینک یہ انعام صارف کو نہ دے تو صارف کو قانوناً مطالبہ کا حق حاصل ہو گا، معلوم ہوا کہ منافع مشروط ہے ورنہ مطالبہ کا حق نہ ہوتا، لہذا اس سے اجتناب لازمی ہے۔
مجلة الأحكام العدليہ میں ہے:
"(المادة 43) : المعروف عرفا كالمشروط شرطا."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، صفحہ: 21، طبع: نور محمد كراچی)
المحيط البرهاني میں ہے:
"وأما هدية المستقرض: إن كانت الهدية مشروطة في الاستقراض فهو حرام، ولا ينبغي للمقرض أن يقبل، فإن لم تكن الهدية مشروطة في الاستقراض، وعلم أنه أهدى إليه لا لأجل الدين أو لأجل الدين، ذكر شيخ الإسلام رحمه الله: أنه لا بأس بقبولها، والتورع عنه أولى، وهكذا حكي عن بعض مشايخنا.
بعد هذا قالوا: إذا كانت المهاداة تجري بينهما قبل القرض بسبب القرابة والصداقة أو كان المستقرض معروفاً بالجودة والسخاوة، فهذا قائم مقام العلم أنه أعطاه لا لأجل الدين فلا يتورع عنه، وإن لم يكن شيء من ذلك، فالحال حال الإشكال، فيتورع عنه حتى يتبين أنه أهدي لا لأجل الدين، ومن قال: بالكراهة في مسألة البيع يقول بالكراهة ههنا أيضاً، ومحمد لم ير به بأساً من غير تفصيل."
(كتاب البيع، الفصل الثالث والعشرون: في القروض، جلد:7، صفحہ: 124، طبع: دار الكب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144503101632
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن