بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

معلوم ہونے کے باوجود جنابت کی حالت میں نماز پڑھانا


سوال

 میں نے ایک مرتبہ فجر کی نماز پڑھائی تھی اور میں جنابت کی حالت میں تھا اور مجھے اس بات کا علم بھی تھا،  مگر حالات کچھ ایسے بن گئے تھے کہ میں مجبور تھا اور میں نے نماز پڑھادی،  تو چونکہ نماز توادا نہیں ہوئی تھی ، تو میں نے پھر اعلان کیا "کہ میں نے ایک دن فجر کی نماز پڑھائی تھی وہ ادا نہیں ہوئی تھی لہذا آپ لوگ اس کی قضا کرلیں" مگر اس اعلان سے قبل تین چار سال کا عرصہ گزر گیا تھا اور درمیان میں اتنا بڑا وقفہ آگیا تھا،  تو اعلان کے وقت کچھ حضرات تو وہ موجود تھے جنہیں میں نے وہ فجر کی نماز پڑھائی تھی،  مگر اکثر لوگ موجود نہیں تھے اور میں ان کو جانتا بھی نہیں ہوں اور ہوسکتا ہے ان میں سے کئی لوگ انتقال بھی کر گئے ہوں۔

اب میرا سوال یہ ہے کہ جو لوگ اعلان سننے کے بعد بھی اس نماز کی قضا نہ کریں ، تو کیا ان کا گناہ مجھ پر ہوگا؟ جو لوگ موجود ہی نہیں تھے جن کو اعلان پہنچا ہی نہیں ان کی اس نماز کا کیا ہوگا اور کیا میں ان لوگوں کی طرف سے اس نماز کا فدیہ ادا کرسکتا ہوں ، کیونکہ ان کی وہ نماز میری وجہ  سے خراب ہوئی تھی؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں امام پر اپنی نماز کی ذمہ داری کے ساتھ  ساتھ تمام مقتدیوں  کی نمازوں کی ذمہ داری ہے، لہذا  سائل کو معلوم ہونے کے باوجود حالت جنابت میں نماز پڑھنا سائل کے لیے ہرگز جائز نہ تھا بلکہ  ناجائز اور حرام تھا ،سائل پر لازم ہے کہ اپنے اس فعل شنیع پر  صدقِ دل سےتوبہ و استغفار کرے،آئندہ کے لیے اس قسم کی حرکت سے اجتناب کرے،نیز مذکورہ غلطی ہوجانے کے بعد  سائل پر لازم تھا کہ وہ فوری اعلان کردیتے ، اعلان میں تین چار سال کی تاخیر کرنا جائز نہیں تھا، باقی  جن لوگوں نے سائل کے پیچھے مذکورہ نماز پڑھی ہے، سائل کے ذمہ لازم ہے کہ   اپنی وسعت اور قدرت کے مطابق ان مقتدیوں کو اطلاع کردے، جنہوں نے  سائل  کے پیچھےمذکورہ نماز فجر پڑھی تھی، جن مقتدیوں  کو اطلاع ملے ، ان کے ذمہ مذکورہ فجر کی نماز کی قضاء لازم ہے، اطلاع کے باوجود جو  مذکورہ نماز کی قضاء نہ کرے، اس کا وبال انہی پر ہوگا، باقی جن لوگوں کو کوشش  کے باوجود اطلاع نہیں مل سکی یا سائل کو ان کا علم نہیں یا جو انتقال کرگئے، تو وہ معذور ہیں،امید ہے کہ ان پر عنداللہ مواخذہ نہیں ہوگا، باقی  سائل کے ذمہ ان کی طرف سے اس نماز کے کفارہ کی ادائیگی لازم نہیں ہے، پس سائل اپنی غلطی پر اللہ سے معافی مانگتا رہے۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وإذا ظهر حدث إمامه) وكذا كل مفسد في رأي مقتد (بطلت فيلزم إعادتها) لتضمنها صلاة المؤتم صحة وفسادا (كما يلزم الإمام إخبار القوم إذا أمهم وهو محدث أو جنب) أو فاقد شرط أو ركن. وهل عليهم إعادتها إن عدلا، نعم وإلا ندبت، وقيل لا لفسقه باعترافه؛ ولو زعم أنه كافر لم يقبل منه لأن الصلاة دليل الإسلام وأجبر عليه (بالقدر الممكن) بلسانه أو (بكتاب أو رسول على الأصح) لو معينين وإلا لا يلزمه بحر عن المعراج وصحح في مجمع الفتاوى عدمه مطلقا لكونه عن خطأ معفو عنه، لكن الشروح مرجحة على الفتاوى."

"(قوله بالقدر الممكن) متعلق بإخبار، وقوله على الأصح متعلق بيلزم (قوله لو معينين) أي معلومين. وقال ح: وإن تعين بعضهم لزمه إخباره (قوله وإلا) أي وإن لم يكونوا معينين كلهم أو بعضهم لا يلزمه (قوله وصحح في مجمع الفتاوى) وكذا صححه الزاهدي في القنية والحاوي وقال وإليه أشار أبو يوسف (قوله مطلقا) أي سواء كان الفساد مختلفا فيه أو متفقا عليه، كما في القنية والحاوي فافهم (قوله لكونه عن خطأ معفو عنه) أي لأنه لم يتعمد ذلك فصلاته غير صحيحة ويلزمه فعلها ثانيا لعلمه بالمفسد.وأما صلاتهم فإنها وإن لم تصح أيضا، لكن لا يلزمهم إعادتها لعدم علمهم ولا يلزمه إخبارهم لعدم تعمده فافهم (قوله لكن الشروح إلخ) أي كالمعراج فإنه شرح الهداية، ونقله في البحر أيضا عن المجتبى شرح القدوري للزاهدي تأمل."

(کتاب الصلاۃ، باب الامامة، ج: 1، ص: 592/591، ط: ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)

وفیہ ایضاً:

"قلت: وبه ظهر أن تعمد الصلاة بلا طهر غير مكفر كصلاته لغير القبلة أو مع ثوب نجس، وهو ظاهر المذهب كما في الخانية."

(قوله: غير مكفر) أشار به إلى الرد على بعض المشايخ، حيث قال المختار أنه يكفر بالصلاة بغير طهارة لا بالصلاة بالثوب النجس وإلى غير القبلة لجواز الأخيرتين حالة العذر بخلاف الأولى فإنه لا يؤتى بها بحال فيكفر. قال الصدر الشهيد: وبه نأخذ ذكره في الخلاصة والذخيرة، وبحث فيه في الحلية بوجهين: أحدهما ما أشار إليه الشارح. ثانيهما أن الجواز بعذر لا يؤثر في عدم الإكفار بلا عذر؛ لأن الموجب للإكفار في هذه المسائل هو الاستهانة، فحيث ثبتت الاستهانة في الكل تساوى الكل في الإكفار، وحيث انتفت منها تساوت في عدمه، وذلك لأنه ليس حكم الفرض لزوم الكفر بتركه، وإلا كان كل تارك لفرض كافرا، وإنما حكمه لزوم الكفر بجحده بلا شبهة دارئة اهـ ملخصا: أي والاستخفاف في حكم الجحود.

(قوله: كما في الخانية) حيث قال بعد ذكره الخلاف في مسألة الصلاة بلا طهارة وأن الإكفار رواية النوادر. وفي ظاهر الرواية لا يكون كفرا، وإنما اختلفوا إذا صلى لا على وجه الاستخفاف بالدين، فإن كان وجه الاستخفاف ينبغي أن يكون كفرا عند الكل. اهـ.

أقول: وهذا مؤيد لما بحثه في الحلية لكن بعد اعتبار كونه مستخفا ومستهينا بالدين كما علمت من كلام الخانية، وهو بمعنى الاستهزاء والسخرية به،أما لو كان بمعنى عد ذلك الفعل خفيفا وهينا من غير استهزاء ولا سخرية، بل لمجرد الكسل أو الجهل فينبغي أن لا يكون كفرا عند الكل تأمل.

(کتاب الطھارة، ج:1، ص: 81، ط: ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

سوال :اگر کسی امام نے حالت حدث یا حالت جنابت میں نماز پڑھائی ہو تو ان نمازوں کا کیا علاج ہو جب کہ یہ یاد نہ ہو کہ اس وقت کون کون نمازی تھے اور ان کو کس طرح اطلاع دیوے؟

 الجواب : در مختار میں ہے کہ اگر امام نے حالت جنابت میں یا حالت حدث میں نماز پڑھا دی،  تو اس کو لازم ہے کہ مقتدیوں کو اطلاع کر دے،  پس امام مذکور کو چاہئے کہ حتی الوسیع جو جو مقتدیوں میں سے یاد آ جاویں،  ان کو اطلاع کر دے کہ فلاں وقت کی نماز کا اعادہ کر لیں کیونکہ وہ نماز نہیں ہوئی تھی اور جو یاد نہ آوے اس کی نماز ہوگئی ،  اس کو اطلاع نہ ہونے میں کچھ حرج نہیں ہے، اگر پھر کبھی یاد آ جاوے تو اس کو بھی اطلاع کر دی جاوے اور خود امام مذکور بھی اس نماز کا اعادہ کرے اور اس گناہ سے تو بہ واستغفار کرے ۔

( ج:3، ص: 65، ط: دارالاشاعت کراچی)

وفیہ ایضاً:

سوال: زید چند مبلغین کے ساتھ کسی گاؤں میں بغرض تبلیغ گیا، رات اس بستی میں قیام رہا اتفا قازید کو احتلام ہو گیا وہاں سے قبل طلوع صبح کے قیام گاہ کی طرف سب لوگ روانہ ہوئے ، راستہ میں ایک مسجد ملی جس میں نہ کوئی غسل خانہ نہ غسل کرنے کا کوئی انتظام ، صرف سقاوہ میں وضو کرنے کے لئے پانی موجود تھا، سب لوگوں نے نماز فجر ادا کی،  زید نے بھی بحالت حدث اکبر ان لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی اور شرم کی وجہ سے اپنے محتلم ہونے کو ظاہر نہیں کیا اور اگر نماز نہ پڑھتا تو سب لوگ اس کے محدث ہونے کو جان لیتے اور زید کو معلوم تھا کہ یہ نماز نہیں ہو گی بلکہ پڑھنے کے وقت قصد کر لیا تھا کہ مکان پر پہنچ کر غسل کر کے نماز ادا کروں گا، تو صورت مسئولہ میں زید کو تجدید ایمان اور تجدید نکاح کی ضرورت ہے یا نہیں ، از روئے شرع شریف کتب معتبرہ سے جواب مدلل کر کے تحریر فرمادیں اور عند اللہ ماجور ہوں۔

 الجواب : صورت مسئولہ میں زید بدستور مسلمان اور اس کا نکاح بدستور قائم ہے اس کو اپنے فعل پر توبہ کرنی چاہئے اس پر لازم ہے کہ کبھی ایسی حرکت کا ارتکاب نہ کرے اس میں اہانت دین اور استخفاف ارکان اسلام کا مشتبہ ہو سکتا ہے ، بہر حال معتمد اس صورت میں عدم تکفیر ہی ہے ، کما فی الشامي و المعتمد عدم التكفير كما هو ظاهر المذهب .

(باب احکام المرتد، ج:12، ص: 247، ط: دارالاشاعت کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605100492

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں