بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ہبہ میں شرط فاسد لگانے کا حکم


سوال

 بندے کا تعلق ایک دینی ادارے سے ہے، الحمدللہ اس ادارے میں اسٹا ف کو مختلف قسم کی سہو لیا ت فر اہم کی جاتی ہیں ،اس میں ایک سہو لت یہ بھی ہے کہ اگر کو ئی اسٹا ف ممبر اپنے شعبے سےمتعلق مزید تعلیم حا صل کرنا چا ہتا ہے تو ادارہ اس صورت میں کل فیس کی رقم  کا 50 فیصد بطورِ قرض اور 50 فیصد بطورِ معاونت اس شرط پر کرتا ہے کہ مطلوبہ اسٹا ف ممبر تعلیم مکمل کر کے  معا ہدے کے مطا بق ادارے میں طے شدہ سا ل خدمات انجام دے گا،اگر کوئی اسٹاف ممبر معا ہدے کے مطا بق  طے شدہ  سال خدمات انجام دیے بغیر ادارہ چھوڑ دے گا تو ایسی صورت میں تعلیم کے لیے دی  جانےوالی ما لی معاونت اور قرض کی رقم اس کے فل اینڈ فائنل کی رقم  سے منہا کردی جا تی ہے۔

پالیسی کے چند نکات اور مثا ل مندرجہ ذیل ہیں:

۱) ادارہ کورس کی فیس میں زیادہ سے زیادہ 50 فی صد تک تعاون کرسکتا ہے، جس کی سالانہ حد 70000 روپے ہےاور اس کا فیصلہ ادارہ اپنی گنجائش دیکھ کر کرے گا۔

۲) کورس شروع کرنے سے قبل ادارہ درخواست گزار سے ایک معاہدہ دستخط کروائے گا، جس میں درخواست گزار کو یہ وعدہ کرنا ہوگا کہ وہ کورس مکمل ہوجانے کے بعد درج ذیل عرصہ ادارے میں ملازمت جاری رکھے گا۔

۳) کورس کی مد میں ادارے نے 20000 روپے تک ادا کیے ہوں تو ایک سال مدت ملازمت جاری رکھنا ہوگی۔

۴) کورس کی مد میں ادارے نے 50000 روپے تک ادا کیے ہوں تو 2 سال مدت ملازمت جاری رکھنا ہوگی۔

۵) کورس کی مد میں ادارے نے 70000 روپے تک ادا کیے ہوں تو تین سال مدت ملازمت جاری رکھنا ہوگی۔

مثا ل کے طور پر زید کورس کرنا چا ہ رہا ہے ،جس کی کل فیس 1 لاکھ روپے ہے تو ایسی صورت میں ادارہ زید کو 50 ہزار بطورِ قرض  (جو ادارہ آ سان قسطوں میں ہر ماہ مشا ہرے سے منہا کرتا  ہے)اور 50 ہزار بطورِ معاونت اس شرط پر دیتا ہے کہ زید تعلیم مکمل کرنے کے بعد پا لیسی کے مطا بق 2 سال مزید ادارے میں خدمات انجام دے گا، جیسا کہ اوپر دی گئی شق میں واضح ہے، اگر زید ایک سال کے بعد ادارے سے استعفاء دے دیتا ہے یا ادارہ زید سے معذرت کر لیتا ہے تو ایسی صورت میں ادارہ پالیسی کے مطا بق زید کے فل اینڈ فائنل کی رقم سے 25000معاونت کی رقم (چونکہ اس نے 2 سال کی جگہ صرف 1 سال مکمل کیا اس وجہ سے پروریٹ کرکے)منہا کر لے گا اور قرض کی رقم جتنی باقی ہوگی، وہ بھی ادارہ  فل اینڈ فائنل کی رقم سے منہا کر لے گا۔

کیا ادارے کا درج بالا عمل شرعی اعتبا ر سے درست ہے ؟ اس بارے میں راہ نما ئی فر ما دیں ۔

جواب

صورتِ مسئولہ  میں مذکورہ ادارہ کا اس طرح معاہدہ کرنا کہ اگر کو ئی اسٹا ف، ممبر اپنے شعبے سےمتعلق مزید تعلیم حا صل کرنا چا ہتا ہے تو ادارہ اس صورت میں کل فیس کی رقم  کا 50 فیصد بطورِ قرض اور 50 فیصد بطورِ معاونت اس شرط پر کرتا ہے کہ مطلوبہ اسٹا ف ممبر تعلیم مکمل کر کے  معا ہدے کے مطا بق ادارے میں طے شدہ سا ل خدمات انجام دے گا،اگر کوئی اسٹاف ممبر معا ہدے کے مطا بق  طے شدہ  سال خدمات انجام دیے بغیر ادارہ چھوڑ دے گا تو ایسی صورت میں تعلیم کے لیے دی  جانےوالی ما لی معاونت  اس کے فل اینڈ فائنل کی رقم  سے منہا کردی جائی گی یہ شرعاًجائز نہیں ہے ،اس لیے کہ جب ممبر کو  کل  فیس کی رقم کا  50فیصد رقم اس کے حوالے کردی تو ہبہ درست ہوگیا ، اس کے بعد یہ کہنا کہ  مطلوبہ اسٹا ف ممبر تعلیم مکمل کر کے  معا ہدے کے مطا بق ادارے میں طے شدہ سا ل خدمات انجام دے گا تو یہ شرط شرعاًفاسد ہےاور شرط  فاسد کی وجہ سے ممبر سے ہبہ کی ہوئی رقم واپس نہیں لے سکتے  ،اس لیے کہ ہبہ شرط فاسد کے ساتھ باطل نہیں ہوتا ،باقی  معاہدہ کی رو سے ممبر کو چاہیے کہ وہ اس معاہد ہ کو پورا کریں ،معاہد پورا  نہ کرنےکی صورت ممبر گناہ گار ہوگا ۔

قرآن کریم   میں باری تعالی کا ارشاد ہے:

"وَأَوفُواْ بِٱلعَهدِ إِنَّ ٱلعَهدَ كَانَ مَسـٔولًا."[سورۃ الإسراء: 43] 

مسند أحمد میں ہے:

’’عن أنس بن مالك قال: ما خطبنا نبي الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: " لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له".

"اس شخص کا کوئی   ایمان نہیں جس میں امانت نہیں، اور اس شخص کا کوئی دین نہیں جس میں وعدہ کی پاس داری نہیں۔"

(‌‌حديث أبي رمثة رضي الله عنه  عن النبي صلى الله عليه وسلم،ج:20،ص:423،ط:مؤسسة الرسالة)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"قال أصحابنا جميعا: إذا وهب هبة وشرط فيها شرطا فاسدا فالهبة جائزة والشرط باطل كمن وهب لرجل أمة فاشترط عليه أن لا يبيعها أو شرط عليه أن يتخذها أم ولد أو أن يبيعها من فلان أو يردها عليه بعد شهر فالهبة جائزة وهذه الشروط كلها باطلة...وإن وهب لرجل أمة على أن يردها عليه أو على أن يعتقها أو على أن يستولدها أو وهب له دارا أو تصدق عليه بدار على أن يرد عليه شيئا منها أو يعوضه شيئا منها فالهبة جائزة والشرط باطل، كذا في الكافي والأصل في هذا ‌أن ‌كل ‌عقد ‌من ‌شرطه ‌القبض ‌فإن ‌الشرط ‌لا ‌يفسده كالهبة والرهن، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب الهبة، الباب الثامن في حكم الشرط في الهبة، ج:4، ص:396، ط: رشيدية)

درر الحکام فی شرح مجلّۃ الاحکام میں ہے:

"يوجد عقود تصح مع الشرط الفاسد أي الذي ليس من مقتضيات العقد ويكون غير ملائم له، ويكون الشرط لغوا وغير معتبر وهي: (1) الوكالة (2) القرض (3) الهبة (4) الصدقة (5) الرهن (6) الإيصاء (7) الإقالة (8) حجر المأذون...وقصارى القول أن الشروط التي لا تكون من مقتضيات العقد إذا وقعت في أحد العقود التي سبق ذكرها تكون العقود صحيحة والشروط بما أنها مخالفة للشرع الشريف تكون لغوا فلا تجب مراعاتها."

(‌المادة 83، يلزم مراعاة الشرط بقدر الإمكان، ج:1، ص:86، ط:دار الجيل)

فتاوی شامی میں ہے:

"والهبة والصدقة لا يفسدان بالشرط الفاسد."

 (كتاب الزكاة،باب العشر،ج:2،ص:346،ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما شرائط الرجوع بعد ثبوت الحق حتى لايصح بدون القضاء والرضا؛ لأن الرجوع فسخ العقد بعد تمامه وفسخ العقد بعد تمامه لا يصح بدون القضاء والرضا كالرد بالعيب في البيع بعد القبض".

(كتاب الهبة، فصل في حكم الهبة، ج: 6، ص: 128، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144607100348

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں