میرے والد صاحب کی میراث تمام ورثاء (تین بیٹوں اور بیوہ) میں تقسیم ہوئی، ہماری والدہ کے حصے میں اٹھاون لاکھ (58,00,000) روپے آئے، بڑے بھائی نے ان کے پیسے بنک میں رکھوا دیے، اور کہا کہ اس کی آمدنی والدہ پر خرچ ہو گی، والدہ کی وفات کے بعد بڑے بھائی نے کہا کہ بیس لاکھ (20,00,000) روپے والدہ کی بیماری خرچ ہوئے، اور تیس لاکھ (30,00,000) مجھے دے دیے ہیں، صرف آٹھ لاکھ (8,00,000) روپے کی تقسیم ہوگی، اب بیس لاکھ والدہ پر کیسے خرچ ہوئے ہمیں معلوم نہیں، اور تیس لاکھ کیسے بڑے بھائی کو دیے، ہمیں اس کا بھی علم نہیں ہے۔
اب دریافت طلب بات یہ ہے کہ کیا اس طرح ہبہ (گفٹ) درست ہو سکتا ہے جب دیگر ورثاء کو علم نہ ہو؟
والدہ کی میراث میں کتنے روپے تقسیم ہوں گے (اٹھاون لاکھ یا آٹھ لاکھ)؟
وضاحت:۔
والدہ کی بیماری کی کیفیت یہ تھی کہ ان کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا، اور یادداشت بھی بحال نہیں تھی۔
والدہ کی بیماری پر بھی جتنا خرچہ بھائی بتا رہے ہیں، ہسپتال سے معلومات کرنے پر پتا چلا کہ اتنا خرچہ نہیں ہوا جتنا بھائی بتا رہے ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں جب سائل کی والدہ کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں تھا تواس حالت میں کیے ہوئے ہبہ (گفٹ) کا شرعاً کوئی اعتبار نہیں ہے، بلکہ وہ پوری رقم والدہ کی ملکیت ہے، اور والدہ کی بیماری پر بیس لاکھ خرچ ہونے کا جو دعویٰ بھائی کر رہا ہے اس پر وہ ثبوت پیش کرے، اگر ثبوت سے اتنی رقم کا خرچ ہونا ثابت کر دیتا ہے تو بیس لاکھ منہا کر کے باقی اڑتیس لاکھ (38,00,000) روپے تمام ورثاء میں تقسیم ہوں گے، اور اگر اس کے پاس ثبوت نہ ہو تو ہسپتال سے معلومات حاصل کر کے خرچ شدہ رقم کااندازہ لگایا جا سکتا ہے، الغرض شرعی ثبوت سے یا ہسپتال سے معلومات لے کر جو رقم علاج و معالجہ پر خرچ کی گئی ہو اس کے علاوہ باقی رقم ترکہ میں تقسیم ہوگی۔
"إعلاء السنن "میں ہے:
" البینة علی المدعی والیمین علی المدعی علیه."
(کتاب الدعوی،باب البینة علی المدعی والیمین علی من أنکر،15 / 351،ط إدارۃ القرآن و العلوم الإسلامیة)
"الدر المختار" میں ہے:
"(وشرائط صحتها في الواهب العقل والبلوغ والملك) فلا تصح هبة صغير ورقيق، ولو مكاتبا."
(کتاب الھبة، 5/ 687، ط:سعيد)
وفيه أيضا:
"(هي) لغة: التفضل على الغير ولو غير مال. وشرعا: (تمليك العين مجانا) .... و) شرائط صحتها (في الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع مميزا غير مشغول)...(وركنها) هو (الإيجاب والقبول)...(وحكمها ثبوت الملك للموهوب له...وحاصله: أن اللفظ إن أنبأ عن تملك الرقبة فهبة...(و) تصح (بقبول) أي في حق الموهوب له أما في حق الواهب فتصح بالإيجاب وحده....(و) تصح (بقبض بلا إذن في المجلس) فإنه هنا كالقبول فاختص بالمجلس (وبعده به) أي بعد المجلس بالإذن...(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها."
(کتاب الھبة، 5/ 687، ط:سعيد)
وفيه أيضا:
"(وحكمه الإثم لمن علم أنه مال الغير ورد العين قائمة والغرم هالكة."
(کتاب الغصب، 6/179، ط:سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144511102580
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن