مجھے میری بہن کی طرف سے ایک بلڈنگ گفٹ ملی تھی،جس میں سے میرے بڑے بھائی کا بیٹا حصہ طلب کر رہا ہے،میں یہ بات واضح کرنا چاہ رہا ہوں کہ میرے بھائی کا انتقال میری بہن سے پہلے ہو گیا تھا،کیا میرے بھائی کا اس جائیداد میں پر حصہ بنتا ہے؟تاکہ میں قیامت کے دن پکڑ سے بچ سکوں۔
وضاحت:مذکورہ بلڈنگ بہن نے قانونی تقاضے پورے کر کےمکمل میرے اختیار میں دےدی تھی،اور کرایہ داروں کو بھی بتا کر خود دستبردار ہو گئی تھی،اگر چہ بعد میں کرایہ دار بھی نکل گئے تھے،اور اس کے بعد سے بلڈنگ خالی پڑی ہوئی ہے،اور ہمارے ہی قبضے و تصرف میں ہے،ہم ہی اس کے پراپرٹی ٹیکس ،بجلی بل، گیس بل وغیرہ دیتے چلے آرہے ہیں،اور یہ سب بہن کی حیات ہی میں ہوتا رہا،اس کے بعد بہن کا جب انتقال ہوا اس وقت میں اور ہماری ایک ہی دوسری بہن حیات تھے،اور مرحومہ بہن غیر شادی شدہ تھی۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کی بہن مذکورہ بلڈنگ گفٹ کرنے کے بعد کرایہ داروں کو بتا کر مکمل طور پر دستبردار رہی،اور اس کے بعد سے سائل ہی بیٹے کے ذریعےکرایہ وصول کر کے استعمال کرتا رہا،اور پھر مذکورہ بلڈنگ کرایہ داروں سے خالی کروانے کے بعد بھی سائل ہی کے تصرف اور اختیار میں رہی،اور اس کے بعد سے بہن کی حیات سے ہی سائل ہی اس کے ٹیکس اور بلز وغیرہ ادا کرتا چلا آرہا ہے،تو ایسی صورت میں مذکورہ بلڈنگ سائل کی ملکیت بن چکی ہے ،لہذا سائل کے بھتیجے کا حصے کامطالبہ کرنا درست نہیں ۔
باقی چونکہ سائل کے دوسرے بھائی( مذکورہ بھتیجے کے والد)کا انتقال بہن سے پہلے ہی ہو چکا تھاتو اس لئےمرحومہ بہن کی وراثت میں بھی ان کا حق و حصہ نہیں کہ جس بناء پر حصے کا مطالبہ درست قرار دیا جا سکے۔
الدر المختار میں ہے:
"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."
(رد المحتار، کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط:سعید)
وفیہ ایضا:
" قلت : فقد افاد ان التلفظ بالايجاب والقبول لا يشترط ، بل تكفي القرائن الدالة علي التمليك.:"
(رد المحتار، کتاب الھبة، ج:5، ص:688، ط:سعید)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق (8/ 557):
"وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث، فنقول: هذا فصل اختلف المشايخ فيه، قال مشايخ العراق: الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث، وقال مشايخ بلخ: الإرث يثبت بعد موت المورث."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 758):
"وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100866
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن