ایک شخص کے چار بیٹے ہیں اور چار بیٹیاں ہیں، اب جو چار بیٹے ہیں وہ باپ کے ساتھ مل کر کاروبار کرتے ہیں، اب ان چاروں نے اس کاروبار میں سے اپنے اپنے مکان بنا لیے اور وہ مکانات پہلے والد ہی کی ملکیت تھے، والد نے ان چاروں کو وہ مکانات دے دیے، کیوں کہ وہ چار بیٹے والد کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹا تے تھے، اس لیے والد نے ان کو ومکانا ت علیحدہ علیحدہ کرکے دے دیے۔ اب چار بیٹیاں بھی ہیں تو کیا ان چاروں مکانات میں بیٹیوں کا بھی حق ہے ؟ اور یہ مکانات وراثت میں تقسیم ہوں گے؟
واضح رہے کہ زندگی میں جو جائیداد تقسیم کی جاتی ہے، اس کو شرعاً ہبہ (گفٹ) کہا جاتا ہے، ہبہ کے درمیان اولاد (بیٹوں اور بیٹیوں) کے درمیان برابری کرنا ضروری ہے، اولاد میں سے کسی کو محروم کرنا یا بلا وجہ کمی بیشی کرنا شرعاً ناجائز ہے، البتہ کسی معقول وجہ کی بناء پر کسی بیٹے یا بیٹی کو بہ نسبت اوروں سے کچھ زیادہ دینے کی گنجائش ہے، مثلاً کسی کی کثرت شرافت ودین داری یا خدمت گزار ہونے کی بناء پر یا کاروبار میں ہاتھ بٹانے پر بنسبت اوروں سے کچھ زیادہ دینے کی گنجائش ہے، بلا وجہ شرعی کسی کو محروم کرنا جائز نہیں ہے، ورنہ گناہ گار ہوگا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں والد صاحب نے اپنے چار بیٹوں میں سے ہر ایک کو علیحدہ علیحدہ مکان لے کردیا اور قبضہ بھی دے دیا ہے، تو یہ والد کی طرف سے اپنے بیٹوں کے لیے ہبہ ہوا ہے، اور ان مکانات کی ملکیت بیٹوں کی طرف منتقل ہوچکی ہے،بیٹیوں کاان مکانات میں کوئی حق نہیں ہے اور نہ یہ مکانات والد کے انتقال کے بعد والد کی وراثت میں شمار ہوں گے۔ لیکن چوں کہ والد نے اپنے بیٹیوں کو کوئی مکان نہیں دیا ہے، تو اس طرح کی غیر منصفانہ تقسیم سے والد گناہ گار ہوا ہے، اس لیے والد پر لازم ہے کہ اپنی بیٹیوں کا بھی زندگی میں جائیداد میں اپنے بیٹوں کے برابر حصہ دے، اگر زندگی میں نہیں دیا تو آخرت میں سخت پکڑ کا اندیشہ ہے۔
مشكاة المصابيح ميں ہے:
"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» وفي رواية قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»"
(كتاب البيوع، ج:2، ص: 909، رقم، 3019، ط: المكتب الإسلامي)
ترجمہ:"حضرت نعمان ابن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا : ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"
مرقاة المفاتيح ميں ہے:
"قال النووي: " فيه استحباب التسوية بين الأولاد في الهبة فلا يفضل بعضهم على بعض سواء كانوا ذكورا أو إناثا، قال بعض أصحابنا: ينبغي أن يكون للذكر مثل حظ الأنثيين، والصحيح الأول لظاهر الحديث فلو وهب بعضهم دون بعض فمذهب الشافعي، ومالك، وأبي حنيفة - رحمهم الله تعالى - أنه مكروه وليس بحرام والهبة صحيحة."
(کتاب البیوع، باب العطایا، ج:5، ص: 2009، رقم: 3019، ط: دار الفکر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط. "
(کتاب الھبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج: 4، صفحہ: 377، ط: دارالفکر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144608102319
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن