بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

حجامہ لگانے کی اجرت / منگل یا بدھ دن کے حجامہ لگانا


سوال

حجامہ کرنے کی اجرت لینا کیسا ہے؟ اور بدھ کے روز حجامہ کرنے کی کوئی شرعی ممانعت ہے یا نہیں؟

جواب

حجامہ  (پچھنے) لگانے کی اجرت لینا جائز ہے،اس لیے  کہ حضور اقدس صلی اللہ   سے  حجامہ کروانا اور اس کی اجرت دینا ثابت ہے۔

تبيين الحقائق  میں ہے:

"قال رحمه الله (والحجام) أي جاز أخذ أجر الحجامة لما روي "أنه عليه الصلاة والسلام احتجم وأعطى أجرته" ولأنه جرى التعارف بين الناس من لدن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومنا هذا فانعقد إجماعا عمليا، وقالت الظاهرية لا يحل لما روي أنه عليه الصلاة والسلام "نهى عن عسب التيس وكسب الحجام وقفيز الطحان" قلنا هذا الحديث منسوخ بما روي أنه صلى الله عليه وسلم ؛قال له رجل إن لي عيالا وغلاما حجاما أفأطعم عيالي من كسبه قال نعم."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، 5/ 124، ط:دار الكتاب الإسلامي)

2:حجامہ لگانے کے لیے کوئی دن مخصوص نہیں ہے، جس دن جس وقت چاہے لگانا جائز ہے، البتہ قمری مہینہ کی   21،19،17 تاریخوں کو لگوانا بہترہے، اس لیے کہ ان تاریخوں میں  خون کا جوش، اعتدال پر ہونے کی بنا پر جسم کو زیادہ فائدہ ہو گا ،  نیز  بدھ کے دن حجامہ لگانے کی ممانعت   ہمیں نہیں مل سکی، البتہ  بعض روایات میں منگل کے دن حجامہ لگانے کی ممانعت منقول ہے ، اس کی وجہ یہ  مروی ہے کہ منگل کا دن خون کا دن ہے، اور اس میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اس میں خون بند نہیں ہوتا، تاہم بعض روایات میں منگل کے دن حجامہ لگوانے کو سال بھر کی بیماریوں کا علاج قرار دیا گیا ہے، دونوں روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ منع والی روایت سترہ تاریخ کی منگل کے علاوہ ہے، اگر منگل چاند کی  سترہ تاریخ کو آرہا ہے تو لگانا اولیٰ ہے۔

اس کی مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

حجامہ لگوانے کی ممنوع تاریخ

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " «من احتجم لسبع عشرة، وتسع عشرة، وإحدى وعشرين كان شفاء له من كل داء» ". رواه أبو داود.

  وعن كبشة بنت أبي بكرة رضي الله عنها: «أن أباها كان ينهی أهله عن الحجامة يوم الثلاثاء، ويزعم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أن يوم الثلاثاء يوم الدم، وفيه ساعة لا يرقأ» ". رواه أبو داود.

(يوم الدم) : أي: يوم غلبته، وقيل معناه: يوم كان فيه الدم أي: قتل ابن آدم أخاه. قلت: ولا منع من الجمع، وأن أحدهما سبب للآخر. (وفيه ساعة لا يرقأ) : بفتح الياء والقاف فهمز أي: لا يسكن الدم فيه، والمعنى أنه لو احتجم أو اقتصد فيه لربما يؤدي إلى هلاكه لعدم انقطاع الدم، والله أعلم. (رواه أبو داود) : ولعله مخصوص بما عدا السابع عشر من الشهر، لما رواه الطبراني والبيهقي عن معقل بن يسار مرفوعا: " «من احتجم يوم الثلاثاء لسبع عشرة من الشهر كان دواء لداء سنة»."

(کتاب الطب والرقیٰ، 7/ 2877، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607100389

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں