بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

حجام (نائی) کو دکان کرایہ پر دینے کا حکم


سوال

 دوکان نائی کو بال کاٹنے والے کو کرائے پر دینا کیسا ہے ؟جبکہ ہم نے اسے یہ بھی کہا ہے کہ دکان پر داڑھی کاٹی جاتی ہے تو دکاندار یہ کہتا ہے کہ داڑھی کٹوانے والے خود آتے ہیں ،اگر ہم نہیں کاٹیں گے تو کسی اور کے پاس بھی تو جائیں گے تو داڑھی کٹوانے کا گناہ تو ان کے اوپر ہوگا تو کیا دکان کرائے پر دے سکتے ہیں یا نہیں دے سکتے؟

جواب

حجام کو دکان کرائے پر دینے کا حکم جاننے سے پہلے حجام کی اپنی اجرت کا حکم جان لینا چاہیے، چنانچہ حجامت میں جو کام حرام ہیں، یعنی داڑھی مونڈنا یا مشت سے کم کرنا یا حُسن کی غرض سے بھنویں بنانا، ان کاموں کی اجرت بھی حرام ہے، اور جو کام جائز ہیں جیسے سر کے بال کاٹنا یا ایک مشت سے زائد ڈاڑھی کو  شرعی طریقے پر درست کرنا، ان کاموں کی اجرت بھی حلال ہے، البتہ جس طرح خلافِ شرع بال (مثلاً: سر کے کچھ حصے کے بال چھوٹے اور کچھ کے بڑے) رکھنا ممنوع ہے، اسی طرح خلافِ شرع بال کاٹنے کی اجرت بھی حلال طیب نہیں۔

لہذا  اگر حجام اس دکان میں افعالِ ممنوعہ  کرتا ہو تو اس کو کرایہ پر دکان دینا مکروہ ہو گا، مالکِ دکان کو  چاہیے کہ حجام کو اس کا پابند کرے کہ وہ اس دکان میں غیر شرعی کام نہ کرے،  ورنہ کسی اور نیک حجام یا کسی اور جائز کام کرنے والے  کو دکان کرائے پر دے، اپنی دکان کو ناجائز کام کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

" لابأس بأن یواجر المسلم داراً من الذمي لیسكنها، فإن شرب فیها الخمر أو عبد فیها الصلیب أو أدخل فیها الخنازیر لم یلحق للمسلم أثم في شيءٍ من ذلك؛ لأنه لم یوجرها لذلك والمعصیة في فعل المستاجر دون قصد رب الدار فلا إثم علی رب الدار في ذلك." (المبسوط ج :16 ص:39، بیروت)

وفیہ ایضاً:

"ولا تجوز ‌الإجارة على شيء من الغناء والنوح والمزامير والطبل وشيء من اللهو؛ لأنه معصية والاستئجار على ‌المعاصي باطل فإن بعقد ‌الإجارة يستحق تسليم المعقود عليه شرعا ولا يجوز أن يستحق على المرء فعل به يكون عاصيا شرعا."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:16، ص:38، ط:دار المعرفة بيروت)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"لا يجوز الاستئجار على المعاصي كاستئجار الإنسان للعب واللهو المحرم وتعليم السحر والشعر المحرم وانتساخ كتب البدع المحرمة، وكاستئجار المغنية والنائحة للغناء والنوح، لأنه استئجار على معصية، والمعصية لا تستحق بالعقد...فالقاعدة الفقهية إذن: أن الاستئجار على المعصية لا يجوز...وكذلك لا يجوز لذمي استئجار دار من مسلم في بلد إسلامية ليتخذهامصلى للناس أو لبيع الخمر أو للقمار؛ لأنه استئجار على المعصية، وهذا رأي جمهور العلماء."

(القسم الثالث العقود أو التصرفات المدنية المالية، الفصل الثالث عقد الإيجار، شروط صحة الإجارة، ج:٥، ص:٣٨١٧، ط:دار الفكرسوريَّة دمشق)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌يحرم على الرجل قطع ‌لحيته."

(كتاب الحظر و الإباحة، فصل في البيع، ج:٦، ص:٤٠٧، ط:دار الفكربيروت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:حجام کی آمدنی کا کیا حکم ہےجس کی آمدنی مسلمانوں کی داڑھی مونڈھنے اور انگریزی بال بنانے سے حاصل ہوئی ہے؟

جواب:یہ کام بھی گناہ ہے ان کی آمدنی بھی مکروہ ہے۔"

(کتاب الاجارۃ، باب الاستیجار علی المعاصی،ج:١٧، ص:١٢٣، ط:دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607102521

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں