بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہندؤوں کے ساتھ کھانے پینے کا حکم


سوال

ہندؤوں  کے  ساتھ  کھانا  پینا جائز ہے  یا نہیں؟

جواب

غیر مسلم  جو کہ مرتد نہ ہو اور  اہلِ  حرب  میں  سے  نہ  ہو ، اس سے معاملات کرنا اور  اس  کے  ساتھ ظاہری خوش خلقی سے پیش آنا  اور اس کی غم خواری کرنا جائز ہے، البتہ  کفار سے دلی دوستی لگانا جائز نہیں۔ نیز غیر مسلم کا جوٹھا بھی پاک ہے  بشرطیکہ اس وقت اس نے  کوئی  ناپاک چیز  نہ کھائی یا پی ہو، جیسے شراب یا سور وغیرہ ، یا غیر مسلم نے برتن میں کوئی ناپاک یا حرام چیز استعمال کی ہو تو اس برتن کو پاک کیے بغیر اس میں کھانا پینا درست نہیں ہے، اسی طرح اہل کتاب کے علاوہ غیر مسلموں کا ذبیحہ بالکلیہ حرام ہے، اور اہلِ کتاب نے صرف اللہ تعالیٰ کا نام لے کر ذبح کیا ہو تو جانور حلال ہے، بصورتِ دیگر یہ ذبیحہ بھی حرام ہے۔

بہرحال  ہندوؤں کے ساتھ کھانا یا ان کے استعمال کردہ برتن کااستعمال وغیرہ  جائز ہے؛ ان کے ساتھ عام لوگوں کی طرح پیش آنا چاہیے، لیکن ان سے قلبی  دوستی لگانا  جائز نہیں ہے،نیز اگر ان سے تعلق کے نتیجے میں اپنے دینی نقصان کا اندیشہ ہو تو ان سے میل ملاقات سے اجتناب کرنا چاہیے۔

قرآن پاک میں  ہے:

﴿ لَايَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً وَّيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّٰهِ الْمَصِيرُ﴾ [آل عمران:28]
ترجمہ: مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہراً یا باطناً) دوست نہ بناویں  مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے ، اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں، مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (28)

مراقی الفلاح میں ہے:

" الأول من الأقسام: سؤر طاهر مطهر بالاتفاق من غیر کراهة في استعماله، وهوما شرب منه آدمي لیس بفمه نجاسة ... ولا فرق بین الصغیر والکبیر والمسلم والکافر والحائض والجنب."

(نورالإیضاح مع شرحه مراقي الفلاح، الطبعة الأولیٰ : ص ۱۸ ط مصطفیٰ البابي الحلبي وأولاده بمصر)

"وإذا تنجس فمه فشرب الماء من فوره تنجس.‘‘

 (نورالإیضاح مع شرحه مراقي الفلاح، الطبعة الأولیٰ : ص ۱۸ ط مصطفیٰ البابي الحلبي وأولاده بمصر)

" وأما نجاسة بدنه فالجمهور علی أنه لیس بنجس البدن والذات؛ لأن الله تعالیٰ أحل طعام أهل الکتاب".

(تفسیر ابن کثیر تحت قوله تعالیٰ: ﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ﴾ الآیة : ۲/۳۴۶ ط سهیل أکادمي)

بیان القرآن میں ہے:

" کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں: موالات یعنی دوستی۔ مدارات: یعنی ظاہری خوش خلقی۔ مواساۃ:  یعنی احسان و نفع رسانی۔ موالات تو کسی حال میں جائز نہیں، اور مدرات تین حالتوں میں درست ہے۔ ایک دفع ضرر کے واسطے، دوسرے اس کافر کی مصلحت دینی یعنی توقعِ ہدایت کے واسطے، تیسرے اکرامِ ضیف کے لیے، اور اپنی مصلحت و منفعتِ مال و جان کے لیے درست نہیں، اور مواسات کا حکم یہ ہے کہ اہلِ حرب کے ساتھ ناجائز ہے اور غیر اہلِ حرب کے ساتھ جائز۔ (بیان القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200941

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں