بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ہندو اور اہل تشییع سے تعلق رکھنا


سوال

ہندو اور اہل تشییع سے تعلق رکھ سکتے ہیں ؟اور ان کی غمی اور خوشی میں شرکت کرسکتے ہیں اوروہ ہماری غمی اور خوشی میں شریک ہوسکتے ہیں؟ اور ان کے گھر سےکچھ آئے وہ کھاسکتے ہیں؟

جواب

 واضح رہے کہ  غیر مسلم، ہندو،   جو  مرتد نہ ہو اور اہلِ حرب میں سے نہ ہو ، اس سے معاملات کرنا اور اس کے ساتھ ظاہری خوش خلقی سے پیش آنا  اور اس کی غم خواری کرنا جائز ہے،لیکن دلی دوستی لگانا ہرگزجائز نہیں۔

 ہندو کی طرف سےجو  کھانے کی چیز آئے تو اگر وہ حلال اور پاک ہو اور غیر اللہ کے نام پر نہ دی گئی ہو  تو اس کے کھانے کی اجازت ہے ،لیکن اگر  یقین  یا غالب گمان کے طور پر معلوم ہے کہ ہندو کی طرف سے دیا گیا ہدیہ مثلاً مٹھائی  وغیرہ بت کے نام پر چڑھائی گئی ہے تو اس کا لینا اور کھانا ہرگز جائز نہیں ہے۔

اور   جو   شیعہ قرآنِ مجید میں تحریف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیل امین سے وحی پہنچانے میں غلطی کا عقیدہ رکھتاہو، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتاہو یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتاہو، یا بارہ اماموں کی امامت من جانب اللہ مان کر ان کو معصوم مانتاہو یا اس کے علاوہ کوئی اور کفریہ عقیدہ رکھتا ہو تو ایسا شیعہ اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہےاورزندیق کے حکم میں ہے ،ان کے ساتھ تعلق رکھنا ،غمی خوشی میں شریک ہونااور ان کے ہاں سے پکا ہوا کھانا کھانا درست نہیں ہے ۔

قرآن کریم میں ہے:

"{ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ}"[البقرة: 173]

اس آیت کے ذیل میں حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ یہاں ایک چوتھی صورت اور ہے جس کا تعلق حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں سے ہے، مثلا مٹھائی کھانا وغیرہ جن کو غیراللہ کے نام پر نذر (منت) کے طور سے  ہندو لوگ بتوں پر اور جاہل مسلمان بزرگوں کے مزارات پر چڑھاتے ہیں، حضرات فقہاء نے اس کو بھی اشتراک ِ علت یعنی تقرب الی غیراللہ کی وجہ سے "ما أهل به لغير الله"   کے حکم میں قرار دے کر حرام کہا ہے اور اس کے کھانے پینے اور دوسروں کو کھلانے اور بیچنے خریدنے سب کو حرام کہا ہے۔‘‘

(معارف القرآن : 1 / 424، ط: مکتبہ معارف القرآن کراچی)  

اکفارالملحدین میں ہے:

"وثانیها: إجماع الأمّة علی تکفیر من خالف الدین المعلوم بالضرورة."

(مجموعۃ رسائل الکاشمیری،ج:3،ص:81،ط:ادارة القرآن)

المسوی شرح المؤطا میں ہے:

"و إن اعترف به أي الحق ظاهرًا لكنه یفسر بعض ما ثبت من الدین ضرورة بخلاف ما فسره الصحابة و التابعون و اجتمعت علیه الأمّة فهو الزندیق."

(ج:،ص:13،ط: رحیمیہ دہلی)

فتاوی شامی میں ہے:

"واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام. 

وفی الحاشیة : مطلب في النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام من شمع أو زيت أو نحوه (قوله: تقربا إليهم) كأن يقول يا سيدي فلان إن رد غائبي أو عوفي مريضي أو قضيت حاجتي فلك من الذهب أو الفضة أو من الطعام أو الشمع أو الزيت كذا بحر (قوله: باطل وحرام) لوجوه: منها أنه نذر لمخلوق والنذر للمخلوق لا يجوز لأنه عبادة والعبادة لا تكون لمخلوق. ومنها أن المنذور له ميت والميت لا يملك، ومنه أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى واعتقاده ذلك كفر ... الخ"

  (كتاب الصوم، باب ما يفسد الصوم و ما لا يفسده، قبيل باب الاعتكاف، 2/ 439 ط: سعيد)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ہے:

"روافض کا وہ فرقہ جو بسبب سب شیخین و تکفیر صحابہ رضی اللہ عنہ کافر ہے، ان کی تجہیز و تکفین میں امداد کرنا اورا ن کے جنازہ کی نماز پڑھنا اور ان کو مسلمان کے قبرستان میں دفن کرنا درست نہیں اور ان سے بالکل متارکت اور مقاطعت کی جاوے تاکہ ان کو تنبیہ ہو اور وہ سنی ہوجاویں۔"

(کتاب الجنائز، ج نمبر ۵، ص نمبر ۲۷۳،دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512101775

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں