بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمتِ مصاہرت (ہونے والی ساس کو شہوت سے چھونے یا زنا کرنے کے بعد اس کی بیٹی سے نکاح کا حکم)


سوال

 1: زید کی شادی نہیں ہوئی ، لیکن ایک جگہ رشتہ طے ہوگیا ہے، اب زید اور اس کی ہونے والی ساس کے آپس میں کچھ تعلقات بن گئے ہیں ، جیسا کے ایک دوسرے سے گلے ملنا، ایک دوسرے کی شرم گاہ کو ہاتھ لگانا، اب یہ دونوں ایک دوسرے کی شرم گاہ کو دیکھتے ہیں اور ہاتھ بھی لگاتے رہتے ہیں ، لیکن زید اور اس کی ساس نے آپس میں جنسی تعلق (زنا) نہیں کیا، صرف ہاتھ لگانے کی حد تک محدود ہیں۔

2: رفیق نے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا اور بعد میں اسی کی بیٹی سے اس کا رشتہ طے پایا گیا ،اب رشتے کو منع کرنے سے کافی مسائل سامنے آ رہے ہیں، تو اس صورت میں اس کا نکاح کرنا کیسا ہے؟

جواب

1۔واضح رہے کہ حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے تین اسباب ہیں: نکاح، زنا اور بلا حائل شہوت کے ساتھ چھونا (ایسا باریک حائل جس کے ہوتے ہوئے جسم کی حرارت محسوس ہو وہ بھی بلا حائل کے حکم میں ہے)۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سوال میں ذکر کیے گئے امور (گلے ملنا، شرم گاہ کو دیکھنا اور ہاتھ لگانا وغیرہ) کی وجہ سے زید اور اس کی ہونے والی ساس کے درمیان حرمتِ مصاہرت قائم ہوچکی ہے، اب زید کے لیے اپنی ہونے والی ساس کی کسی بھی بیٹی سے نکاح کرنا جائز نہیں، بلکہ اس عورت کی تمام بیٹیاں زید پر حرام ہوچکی ہیں۔ نیز زید اور مذکورہ خاتون پر لازم ہے کہ ان ناجائز امور سے فورا باز آجائیں اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں سچے دل سے توبہ و استغفار کریں۔

2۔رفیق نے جس عورت کے ساتھ زنا کیا ہے اب اس عورت کی تمام بیٹیاں رفیق پر حرام ہوچکی ہیں، اب رفیق کے لیے اس عورت کی کسی بھی بیٹی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے، رفیق کو چاہیے کہ اس رشتے کو کسی بھی طرح توڑ دے، خواہ کتنے ہی مسائل پیش آئیں۔ نیز رفیق اور اس کی ہونے والی ساس کو چاہیے کہ اپنے اس قبیح فعل (زنا) پر سچے دل سے توبہ و استغفار کریں اور آئندہ ایسا فعل نہ کرنے کا پکا عزم کریں۔

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"{وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا}"[النساء: 22]

         "ترجمہ: اور تم ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ (دادا یا نانا) نے نکاح کیا ہو، مگر جو بات گزرگئی (گزرگئی) بے شک یہ (عقلاً بھی) بڑی بےحیائی ہے اور نہایت نفرت کی بات ہے۔ اور (شرعاً بھی) بہت برا طریقہ ہے۔ (بیان القرآن)"

حدیث شریف میں ہے:

"عن حجاج، عن أبي هانئ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من نظر إلى فرج امرأة، لم تحل له أمها، ولا ابنتها."

(کتاب النکاح، باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته، ج:3، ص:480،  ط: مکتبة الرشد، ریاض)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وتثبت حرمة المصاهرة بالنكاح الصحيح دون الفاسد، كذا في محيط السرخسي. فلو تزوجها نكاحا فاسدا لا تحرم عليه أمها بمجرد العقد بل بالوطء هكذا في البحر الرائق. وتثبت بالوطء حلالا كان أو عن شبهة أو زنا، كذا في فتاوى قاضي خان. فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير ... وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة، كذا في الذخيرة. سواء كان بنكاح أو ملك أو فجور عندنا، كذا في الملتقط. قال أصحابنا: الربيبة وغيرها في ذلك سواء هكذا في الذخيرة. والمباشرة عن شهوة بمنزلة القبلة وكذا المعانقة وهكذا في فتاوى قاضي خان. وكذا لو عضها بشهوة هكذا في الخلاصة. فإن نظرت المرأة إلى ذكر الرجل أو لمسته بشهوة أو قبلته بشهوة تعلقت به حرمت المصاهرة، كذا في الجوهرة النيرة. ولا تثبت بالنظر إلى سائر الأعضاء إلا بشهوة ولا بمس سائر الأعضاء لا عن شهوة بلا خلاف، كذا في البدائع. والمعتبر النظر إلى الفرج الداخل هكذا في الهداية. وعليه الفتوى هكذا في الظهيرية وجواهر الأخلاطي. قالوا: لو نظر إلى فرجها وهي قائمة لا تثبت حرمة المصاهرة، وإنما يقع النظر في الداخل إذا كانت قاعدة متكئة، كذا في فتاوى قاضي خان ...  ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة. وكذا لو مس أسفل الخف إلا إذا كان منعلا لا يجد لين القدم، كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب النکاح، الباب الثالث، القسم الثاني، ج:1، ص:374، 375، ط:مكتبه رشيدية)

       فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: مصاهرةً) كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح، وإن علون، وإن لم يدخل بالزوجات وتحرم موطوءات آبائه وأجداده، وإن علوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح، وموطوءات أبنائه وآباء أولاده، وإن سفلوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح فتح، وكذا المقبلات أو الملموسات بشهوة لأصوله أو فروعه أو من قبل أو لمس أصولهن أو فروعهن."

 (کتاب النکاح،فصل في المحرمات،ج:3،ص:28،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100126

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں