بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

حور عین نام رکھنا


سوال

برائے کرم رہنمائی فرمائیں کہ بیٹیوں کے نام یہ درست ہیں:

1- حور عین  2- حور العین؟  اور ان کے معنی بھی بتائیں!

جواب

1- ’’حُور عِین‘‘ دو لفظوں سے مرکب ہے، ’’حُور‘‘ اور ’’عِین‘‘۔ حور عین کا معنی ہے: "سیاہ چشم عورتیں"، یعنی وہ عورتیں جن کی آنکھوں کی سفیدی نہایت سفید اور سیاہی نہایت سیاہ ہو۔   قرآنِ کریم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے، یہ نام رکھنا  جائز تو ہے۔ البتہ لفظِ ’’حُوْر‘‘ میں تین احتمال ہیں:

  1- ’’أَحْوَر‘‘ (مذکر صفت) کی جمع ہو۔ اس اعتبار سے یہ نام رکھنا درست نہیں۔

2- ’’حَوْرَاء‘‘ (مؤنث صفت کی جمع ہو)، اس اعتبار سے اس کا معنیٰ ہیں: سفید رنگت والی عورتیں،  ’’حور‘‘ جنت کی عورتوں  کو کہتے ہیں۔ لیکن ’’حُوْر‘‘ مفرد نہیں، بلکہ جمع ہے۔

3- ’’حُوْر‘‘ (مفرد اسم) ہو، اس کا معنیٰ ہے: نقصان، اور ہلاکت۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ نام رکھنا  بہتر نہیں ہے، اس کے بجائے بچی کا نام صحابیات مکرمات رضی اللہ عنہن کے ناموں میں سے کسی نام پر رکھنا چاہیے۔

۲)"حور العین" بھی  حور  عین کے معنی میں ہی ہے، دونوں میں صرف ترکیب (الفاظ کی جوڑ توڑ ) کا فرق ہے، لہذا اس طرح نام رکھنا بھی  جائز ہے، لیکن ۔

محیط اللغۃ میں ہے:

"حورة بفتحتين أيضًا والحور أيضًا: شدة بياض العين في شدة سوادها، وامرأة حوراء: بينة الحور، يقال: احورت عينه احوراراً، قال الأصمعي: ما أدري ما الحور في العين، وقال أبوعمرو: الحور أن تسود العين كلها مثل أعين الظباء والبقر، وقال: وليس في بني آدم حور، وإنما قيل للنساء: حور العيون تشبيهاً بالظباء والبقر".

(1/69، ط: دارالكتب العلمية)

’’حورِ عین‘‘  کا معنی "سیاہ چشم عورتیں" ہے، جن کی آنکھوں کی سفیدی نہایت سفید اور سیاہی نہایت سیاہ ہو، قرآنِ کریم میں بھی  (یعنی سورہ دخان، آیت:54 میں) یہ لفظ استعمال ہوا ہے، لہذا یہ نام رکھنا درست ہے۔

الجامع لاحکام القرآن (تفسير القرطبی) میں ہے:

"كَذَلِكَ وَزَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ" (54) 

"وَقَالَ أَبُو عَمْرٍو: الْحَوَرُ أَنْ تَسْوَدَّ الْعَيْنُ كُلُّهَا مِثْلَ أَعْيُنِ الظِّبَاءِ وَالْبَقَرِ. قَالَ: وَلَيْسَ فِي بَنِي آدَمَ حَوَرٌ، وَإِنَّمَا قِيلَ لِلنِّسَاءِ: حُورُ الْعِينِ لِأَنَّهُنَّ يُشَبَّهْنَ بِالظِّبَاءِ وَالْبَقَرِ. وَقَالَ الْعَجَّاجُ:بِأَعْيُنٍ مُحَوَّرَاتٍ حُورِ . يَعْنِي الْأَعْيُنَ النَّقِيَّاتِ الْبَيَاضِ الشَّدِيدَاتِ سَوَادِ الْحَدْقِ. وَالْعِينُ جَمْعُ عَيْنَاءَ، وَهِيَ الْوَاسِعَةُ الْعَظِيمَةُ الْعَيْنَيْنِ."

(سورة الدخان،رقم الآية:54، ج:16، ص:153، ط:دارالكتب المصرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200950

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں