بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ہارمونل ادویات كے ذريعے آنے والے دودھ سے رضاعت كا ثبوت


سوال

ایک شادی شدہ جوڑے نے (جن کے ہاں کئی برس سے اولاد نہیں ہو رہی تھی) اپنے ایک عزیز (بیوی کے بھائی) کی نو زائدہ بیٹی گود لی ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ بچی بالغ ہو کر اس مرد (شوہر) کے لیے نامحرم ہو جائے گی ، اس مسئلے کے حل کیلئے بیوی اس بچی کے ساتھ رضاعت کا رشتہ قائم کرنا چاہتی ہے، تاکہ اس کا شوہر اس بچی کا رضاعی باپ بن جائے ۔ ایسا کرنے کے لئے اس عورت کو کچھ ہارمونل ادویات کا سہارا لینا ہوگا، کیا اس طرح مصنوعی طور پر رضاعت کرنا درست ہے؟ اور کیا ایسا کرنے سے (شوہر کیلئے) رضاعت کا رشتہ ثابت ہو جائے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ  میں مذکورہ خاتون کو ہارمونل ادویات کے ذریعے اگر دودھ آجائے اور وہ اپنے بھائی سے گود لی ہوئی بچی کو مدتِ رضاعت (ڈھائی سال) کے اندر دودھ پلادے تو اس صورت میں مذکورہ خاتون کے ساتھ   رضاعت کا رشتہ قائم ہو جائےگا، البتہ  چوں کہ دودھ  شوہر  کی وجہ سے نہیں آیا ہوگا اس لیے  شوہر اس بچی کا رضاعی والد نہیں بنے گا اور بچی شوہرکےلیے غیر محرم  ہی رہے گی  البتہ اگر شوہر کی بہن وغیرہ اس بچی کو دودھ  پلادے اگر چہ وہ بھی ادویات کااستعمال کرے تو بچی شوہرکی بھانجی بن جائے گی اور اس کے لیے محرم ہوجائے گی اور پردہ کے مسائل باقی نہیں رہیں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"يثبت (أبوة زوج مرضعة) إذا كان (لبنها منه) (له) وإلا لا كما سيجيء.

(فيحرم منه) أي بسببه (ما يحرم من النسب) رواه الشيخان.
(قوله: وأبوة زوج مرضعة لبنها منه) المراد به اللبن الذي نزل منها بسبب ولادتها من رجل زوج أو سيد فليس الزوج قيدًا بل خرج مخرج الغالب، بحر."

(باب الرضاع، 3/213، ط: سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"لأنه لو تزوج امرأة ولم تلد منه قط ونزل لها لبن وأرضعت ولدا لا يكون الزوج أبا للولد لأن نسبته إليه بسبب الولادة منه، وإذا انتفت انتفت النسبة فكان كلبن ‌البكر، ولهذا لو ولدت للزوج فنزل لها لبن فأرضعت به ثم جف لبنها ثم در فأرضعته صبية فإن لابن زوج المرضعة التزوج بهذه الصبية، ولو كان صبيا كان له التزوج بأولاد هذا الرجل من غير المرضعة بحر عن الخانية."

(كتاب الرضاع، ج:3 ص:221 ط: سعید)

البحر الرائق  میں ہے:

"(قوله: وحرم به، وإن قل في ثلاثين شهرا ما حرم منه بالنسب) أي حرم بسبب الرضاع ما حرم بسبب النسب قرابة وصهرية في هذه المدة ولو كان الرضاع قليلا لحديث الصحيحين المشهور: يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب."

(کتاب الرضاع، 238/3 ط: دارالکتاب الاسلامی )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604101825

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں