میں ہندوستان سے ہوں، میری شادی کو 4 سال ہو چکے ہیں۔ میری عمر 34 سال ہے اور بیوی کی عمر 29 سال ہے۔ ہم بچے کے لئے کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک اولاد نہیں ہوئی، پچھلے 2 سالوں سے ہم مختلف دوائیاں، انجیکشن اور دیگر علاج کروا رہے ہیں، مگر حمل نہیں ٹھہرا، حال ہی میں ہم نے ایک مشہور ڈاکٹر سے مشورہ کیا، جنہوں نے ہمیں 3 ماہ تک آئی یو آئی ( شوہر کا جرثومہ لے کر ڈاکٹر اسے واش کرتے ہیں اور پھر انجیکشن سے عورت کے رحم میں ڈالتے ہیں) کروانے کا مشورہ دیا ہے، اگر اس سے بھی کامیابی نہ ہو تو آئی وی ایف (عورت اور مرد دونوں کے جرثومے حاصل کیے جاتے ہیں،ان کو ایک ٹیوب میں بارہ ہفتے رکھا جاتاہے،جس میں وہ تمام لوازمات پاۓ جاتے ہیں جوکہ رحم مادر میں ہوتے ہیں،پھر ان جرثوموں کو غیر فطری طریقے ـ(بذریعہ انجکشن)سے رحم مادر میں داخل کیا جاتا ہے اور یوں نو ماہ بعد بچے کی پیدائش عمل میں آتی ہے) کا علاج کروانے کا کہا ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ شرعی نقطۂ نظر سے کیا آئی یو آئی یا آئی وی ایف کروانا جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کس صورت میں ہم اس کا انتخاب کر سکتے ہیں؟ یعنی میرا مقصد ہے کہ حالت اضطرار میں جائز ہے یا حالت اختیار میں بھی جائز ہے ؟
واضح رہے کہ اگر شوہر کا مادۂ منویہ نکالنے اور بیوی کے رحم میں داخل کرنے کے عمل میں کسی اجنبی مرداور عورت کا دخل نہ ہو، یعنی مادۂ منویہ بھی شوہر کا ہی ہو اور اسی کی بیوی کے رحم میں ڈالا جائے اور یہ کام ڈاکٹر سے تربیت لے کر شوہر اور بیوی خودانجام دےتو اس کی گنجائش ہے، لیکن اگر مادۂ منویہ شوہر کے علاوہ کسی اور کا ہو، یا شوہر کے مادۂ منویہ کوغیرفطری طریقہ سے نکالنے یا عورت کے رحم میں داخل کرنے میں تیسرے مردیاعورت کا عمل دخل ہو اور اجنبی مردیاعورت کے سامنے ستر کھولنے یا چھونے کی ضرورت پڑتی ہو تو اس طرح کرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، کیوں کہ حصول اولاد کی یہ کوشش شرعی اعتبار سے ضرورت کے دائرہ میں نہیں آتی ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح."
(کتاب الحظر والإباحة،فصل فی النظر والمس، 371/6، ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ذکر شمس الأیمة الحلواني رحمه اللہ تعالی في شرح کتاب الصوم أن الحقنة إنما تجوز عند الضرورة، وإذا لم یکن ثمة ضرورة ولکن فیھا منفعة ظاھرة بأن یتقوی بسببھا علی الجماع لا یحل عندنا………کذا فی الذخیرة."
(کتاب الکراهیة،الباب التاسع فی اللبس ۔۔۔،330/5، ط:دارالفکر)
بدائع الصنائع ميں ہے:
"ولا یجوز لھا أن تنظر ما بین سرتھا إلی الرکبة إلا عند الضرورة، بأن کانت قابلة فلا بأس لھا أن تنظر إلی الفرج عند الولادة، وکذا لا بأس أن تنظر إلیه لمعرفة البکارة في امرأة العنین، والجاریة المشتراة علی شرط البکارة إذا اختصما، وکذا إذا کان بھا جرح أو قرح في موضع لا یحل للرجال النظر إلیه فلا بأس أن تداویھا، إذا علمت المداومة، فإن تعلم تتعلم ثم تداویھا، فإن توجد امرأة تعلم المداومة ولا امرأة تتعلم وخیف علیھا الھلاك أو بلاء أو وجع لا تحمله یداویھا الرجل، لکن لا یکشف منھا إلا موضع الجرح ویغض بصرہ مااستطاع."
(کتاب الإستحسان، 499/6، ط: دارالکتب العلمیة)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"سوال: میری شادی کو بارہ برس گذر گیے، میری منی میں جراثیم مردہ پائے گیے ہیں، اس لیے بچہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جس طرح ٹیوب سے مویشی کو حمل کرایا جاتا ہے، اسی طرح تم اپنی عورت کو حاملہ کرالو، یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟ الجواب: عورت کو اس طرح گھوڑی بناکر اولاد حاصل کرنا ہر گز جائز نہیں، ڈاکٹروں اور حکیموں سے اپنا علاج کرائیں، اور حق تعالی سے دعاء کریں۔"
(کتاب الحظر والاباحۃ، 324/18، ط: ادارۃ الفاروق کراچی)
احسن الفتاوی میں ہے:
"ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے طریق کار میں کسی ایسے مرض کا علاج نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے کسی جسمانی تکلیف میں ابتلاء ہو، یہ دفع مضرت بدنیہ نہیں بلکہ جلب منفعت ہے، اس لیے یہ عمل لیڈی ڈاکٹر سے بھی کروانا جائز نہیں، مرد ڈاکٹر سے کروانا انتہائی بے دینی کے علاوہ ایسی بے غیرتی و بےشرمی بھی ہے جس کے تصور سےبھی انسانیت کو سوں دور بھاگتی ہے، اللہ تعالی کو ناراض کرکے جو اولاد حاصل کی گئی وہ وبال ہی بنے گی۔"
(کتاب الحظر والاباحۃ، 215/8، ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604102533
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن