کسی فاؤنڈیشن میں زکات کے مال سے وہاں ہسپتال کے اسٹاف کی تنخواہیں دی جاتی ہیں، جو غریب لوگوں کا علاج کرتا ہے، تو کیا یہ جائز ہے؟
واضح رہے کہ زکات کی ادائیگی کےدرست ہونے کے لیے بلا عوض کسی غریب مستحقِ زکات کو مالک بنا کر مال دینا ضروری ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں ہسپتال کے اسٹاف کو زکات کے مال سے تنخواہیں دینے سے زکات ادا نہیں ہوگی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله - تعالى - هذا في الشرع كذا في التبيين."
(كتاب الزكاة، ج:1، ص:170، ط:دار الفكر)
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:
"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز إلا إذا نص على التعويض، ولو دفعها لأخته ولها على زوجها مهر يبلغ نصابا وهو مليء مقر، ولو طلبت لا يمتنع عن الأداء لا تجوز وإلا جاز ولو دفعها المعلم لخليفته إن كان بحيث يعمل له لو لم يعطه وإلا لا.
(قوله: وإلا لا) أي؛ لأن المدفوع يكون بمنزلة العوض ط."
(كتاب الزكاة، ج:2، ص:356، ط:سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144609102424
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن