بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

حضور ﷺ کے احکامات شرعیہ میں با اختیار ہونے کا عقیدہ


سوال

ایک امام نے  کہا کہ آپ ﷺ اتنا اختیار رکھتے تھے کہ ایک مسلمان کو پانچ کے بجائے تین یا دو نمازیوں کا حکم دیتے،باقی معاف کروادیتے،یعنی فرضی احکامات (فرائض )میں تبدیلی کرسکتے تھے اور کہا کہ یہ صرف ہمارا عقیدہ نہیں ہے،دیوبندیوں کا بھی یہ عقیدہ ہے،ان کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے اور علامہ سیوطی رحمہ اللہ کا ایک حوالہ بھی پیش کرتے ہیں،اس کے بارے میں شرعی رہنمائی چاہیے، اس حدیث سے استدلال کیا ہے، ”حدثنا عمرو بن عون، أخبرنا خالد عن داود بن أبي هند، عن أبي حرب بن أبي الأسود، عن عبد الله بن فضالة عن أبيه، قال: علمني رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان فيما علمني: "وحافظ على الصلوات الخمس" قال: قلت: إن هذه ساعات لي فيها أشغال، فمرني بأمر جامع إذا أنا فعلته أجزأ عني، فقال: "حافظ على العصرين" -وما كانت من لغتنا- فقلت:. وما العصران؟ فقال: "صلاة قبل طلوع الشمس، وصلاة قبل غروبها"(راوہ ابو داؤد).“

جواب

واضح رہے کہ حضورﷺ اللہ کے احکام بندوں تک  پہنچاتے تھے،اللہ کی طرف سے حضور ﷺ پر جو بھی وحی آئی،اس میں حضور ﷺ  نے ایک لفظ  کی بھی کمی نہیں کی اور نہ ہی ایک لفظ اپنی طرف سے بڑھایا،صورتِ مسئولہ میں جس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے،محدثین نے اس کے مختلف احتمالات ذکر کیے ہیں،امام بیہقی رحمہ اللہ نے یہ تاویل  کی ہے کہ آپﷺ نے اس صحابی سے فرمایا کہ صلوات  خمسہ اوقات مستحبہ میں پڑھیں،اس نے عذر پیش کیا،یہ اوقات میری مشغولی کے ہوتے ہیں،آپ ﷺ نے فرمایا اچھا دو نمازیں مستحب وقت میں پڑھ لیا کرو،باقی کا جب بھی وقت ملے پڑھ لیا کرو،اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے باقی نمازیں معاف کروادی  گئیں۔ابن حبان رحمہ اللہ نے اس کی تاویل اس طرح کی ہے کہ حضور ﷺ نے ان دو نمازوں کو مستحب اوقات میں پڑھنے کی اور محافظت کی تاکید کی ہے،اس  کا یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی نمازیں غیر مستحب وقت میں پڑھ لی جائیں۔بعض محدثین نے یہ تاویل پیش کی ہے کہ حضور ﷺ نے ان دونمازوں  کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ؛کیوں کہ ان دونوں وقتوں میں فرشتوں کے اجتماع کا وقت  ہوتاہے، یہ مراد نہیں کہ باقی نمازیں معاف کردی گئیں۔بعض نے یہ تاویل کی ہےکہ یہ دونوں اوقات غفلت اور سستی کے ہوتے ہیں، جب اس پر پابندی کی جائے گی تو باقی پر پابندی کرنا آسان ہوگا،یہ مراد نہیں کہ باقی نمازیں معاف کردی گئیں۔ صرف علامہ  سیوطی رحمہ  اللہ نے اس حدیث کو اپنے ظاہر پر رکھا ہے اور اس کو حضور ﷺ کی خصوصیت میں شمار کیا ہے کہ حضور ﷺ نے اس کو صرف دو نمازوں کا حکم دیا یعنی باقی معاف کیں،اس حدیث سے اس بات پر استدلال کرنا کہ حضور ﷺ فرض احکامات میں جس طرح چاہتے تھے،تبدیلی کرتے تھےصحیح نہیں، کیوں کہ   قرآن پاک اور احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ  حضور ﷺ اپنی طرف سے کسی بات کا حکم نہیں کرتے تھے، نہ  کسی چیز کو حلال اور نہ حرام نہ فرض وغیرہ، بلکہ اللہ   کی طرف سے حضور ﷺ پر جو وحی  نازل ہوئی، وہی بات آپ ﷺ نے اپنی امت کو بتائی ۔

 باقی جس حدیث سے استدلال کیا گیا،اس کے بارے میں خود محدثین نے مختلف توجیہات پیش کی ہیں،صرف علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس  کو حضور ﷺ کی خصوصیت قرار دیا،باقی محدثین نے اس کو صرف وقت میں رعایت تک محدود رکھا ہے،لہذااس سے یہ مراد لینا کہ حضور ﷺ تمام احکامات میں جس طرح چاہتے تھے،اپنی طرف سے تبدیلی کرتے تھے،صحیح نہیں ہے۔

قرآن پاک میں ہے:

"يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ."(التحریم،1)

 ترجمہ:اے نبی جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کیا ہے آپ(قسم کھا کر) اس کو (اپنے اوپر) کیوں حرام فرماتے ہیں۔(بیان القرآن)

تفسیر کبیر  میں ہے:

"ينافي القدرة على تحريم ما أحل الله، ولهذا قال تعالى: لم تحرم ما أحل الله لك واختلفوا في الذي حرمه النبي صلى الله عليه وسلم على نفسه."

(‌‌سورة التحريم، 568/30، ط: دار إحياء التراث العربي)

بذل المجہود میں ہے:

"فقال البيهقي بـ "سننه" في تأويله وأحسن: كأنه أراد - والله أعلم- حافظ عليهما بأول أوقاتهما، فاعتذر بأشغال مقتضية لتأخيرهما عن أولهما،فأمره بالمحافظة على الصلاتين بأول وقتهما  .وتأول ابن حبان بـ "صحيحه"بأن المحافظة على العصرين إنما هو زيادة تأكيد لهما مع بقاء الأمر بالمحافظة على أول وقت كل. وقال أحمد بـ "مسنده" : نا محمد بن جعفر، نا شعبة، عن قتادة عن نصر بن عاصم، عن رجل منهم "أنه أتى النبي صلى الله عليه وسلم فأسلم على أنه لا يصلي إلا صلاتين، فقبل ذلك منه".فظاهر هذا أنه أسقط عنه ثلاث صلوات، فكان من خصائصه صلى الله عليه وسلم أنه يخص من شاء بما شاء من الأحكام، ويسقط عمن شاء ما شاء من الواجبات، كما بينته بكتاب "الخصائص" فهذا منه."

(كتاب الصلاة، باب: في المحافظة على الصلوات، 106/3۔107، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب میں ہے:

"وإنما أمر بأدائهما في الوقت المختار والمحافظة عليهما في الجماعة لما فيهما من الفضل والزيادة في الأجر إذ فيهما تشهد ملائكة الليل والنهار ولأن إحداهما تقام في وقت تثاقل النفوس لتراكم الغفلة واستحلاء النوم والأخرى تقام عند قيام الأسواق في البلدان واشتغال الناس بالمعاملات فنبه المكلفين على هذه المعاني بزيادة تأكيد كذا في الميسر للإمام شهاب الدين التوربشتي.وقيل المعنى أن المسلم إذا كان محافظا عليهما وأتى بهما في وقتهما مع ما فيه من التثاقل والمشاغل كان الظاهر من حاله أن يحافظ على غيرهما أشد محافظة وما عسى أن يقع منه تفريط فبالحري أن تقع مكفرة تغفر له ويدخل الجنة والله أعلم."

(الترغيب على المحافظة على الصبح والعصر، 451/3، ط: مكتبة دار السلام)

التحبير لإيضاح معاني التيسير میں ہے:

"قاله في "النهاية"وليس المراد أنه أذن صلى الله عليه وسلم له بتأخير الصلوات بل حثه على هاتين الصلاتين زيادة في حثه على غيرهما؛ لأنهما وقت النوم ووقت الاشتغال في الأسواق."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌القسم الأول، ‌‌الباب الثاني، 29/5، ط: مَكتَبَةُ الرُّشد، الرياض)

فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101262

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں