بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

حکومت کی طرف سے لگنے والے ٹیکس کو منہا کر کے باقی ماندہ مال سے زکوۃ ادا کرنے کا حکم


سوال

کاروبار یا تجارتی معاملات میں حکومت کی جانب سے مختلف ٹیکس لگتے ہیں، بسااوقات منافع پر بھی انکم ٹیکس کے نام سے ٹیکس لاگو ہوتا ہے،  سوال یہ ہے کہ زکات کی ادائیگی حکومت کی طرف سے لاگو جملہ ٹیکسوں کی ادائیگی کے بعد کی جائے گا؟ یا پہلے کل مال(بشمول سرمایہ اور کل منافع) میں سے زکات ادا کی جائے اور بعد ازاں ٹیکس وغیرہ ادا کیاجائے؟ آج کل کے حالات کو دیکھتے ہوئے اس دوسری صورت میں مشقت اور حرج بھی لازم آتا ہے، اس کو پیشِ نظر رکھ کر بحوالہ جواب عنایت کیاجائے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں زکوۃ  کا سال مکمل ہونے تک حکومت کی طرف سے جتنا ٹیکس واجب الادا ہو،  اتنی ٹیکس کی رقم کل سرمایہ سے منہا کرلی جائے، اس کے بعد جو رقم بنیادی ضرورت سے زائد ہو اس پر زکات واجب ہوگی،  اور ٹیکس کی جتنی مقدار کی ادائیگی فی الحال یعنی زکوۃ کا سال مکمل ہونے کے وقت تک لازم نہ ہوئی ہو، وہ منہا نہیں کی جائے گا،بلکہ اس رقم سمیت زکوۃ ادا کرنا ضروری ہے۔

فتاویٰ عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"(ومنها الفراغ عن الدين) قال أصحابنا - رحمهم الله تعالى -: كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة سواء كان الدين للعباد كالقرض وثمن البيع وضمان المتلفات وأرش الجراحة".

(کتاب الزکوۃ، الباب الاول فی تفسیر الزکوۃ، ج:1، ص:172، ط:مکتبہ رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602102587

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں