بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

معتمر یا حاجی نے حلق نہ کیا تو کیا حکم؟


سوال

 اگر کسی معتمر یا حاجی نے پورا سر نہ منڈوایا تو کیا اس پر دم لازم ہوگا یا نہیں؟

جواب

حج اور عمرہ کے ارکان ادا کرنے کے بعد  حلق (سرمنڈوانا) یا قصر (کم از کم ایک چوتھائی سر کے بال کم از کم ایک پورے کے برابر کاٹنا)  ضروری ہے، لہذا اگر پورے سر کا حلق نہیں کرایا لیکن   چوتھائی سر کے بال  ایک پورے کے بقدر کٹوالیے ہیں یعنی  قصر کیا ہے  یا چوتھائی سر کا حلق کیا ہے تو بھی  حلال ہونے کے لیے کافی  ہے،  اس سے دم واجب نہیں ہوتا، تاہم اس طرح سر کے کچھ حصے کے بال کاٹنا اور کچھ حصے کے بال چھوڑدینا مکروہ ہے؛ لہٰذا حلق یا قصر پورے سر کے بالوں کا کرنا چاہیے۔  اور اگر معتمر یا حاجی نے احرام کھولنے کے لیے  قصر بھی نہیں کیا اور احرام کھول دیا تو پھر ایسی صورت میں دم واجب ہو گا۔

حدیث شریف میں ہے: 

"حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة، وزهير بن حرب، وابن نمير، وأبو كريب، جميعا عن ابن فضيل، قال زهير: حدثنا محمد بن فضيل، حدثنا عمارة، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اللهم اغفر للمحلقين»، قالوا: يا رسول الله، وللمقصرين؟، قال: «اللهم اغفر للمحلقين» قالوا: يا رسول الله، وللمقصرين؟، قال: «اللهم اغفر للمحلقين»، قالوا: يا رسول الله، وللمقصرين؟ قال: «وللمقصرين."

 (كتاب الحج، باب تفضيل الحلق على التقصير وجواز التقصير، ج: ۲، صفحہ: ۹۴۶، رقم الحدیث: ۱۳۰۲، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(أو حلق في حل بحج) في أيام النحر، فلو بعدها فدمان (أو عمرة) لاختصاص الحلق بالحرم.(قوله: أو حلق في حل بحج أو عمرة) أي يجب دم لو حلق للحج أو العمرة في الحل؛ لتوقته بالمكان، وهذا عندهما، خلافاً للثاني، (قوله: في أيام النحر) متعلق بحلق بقيد كونه للحج، ولذا قدمه على قوله أو عمرة، فيتقيد حلق الحاج بالزمان أيضاً، وخالف فيه محمد، وخالف أبو يوسف فيهما، وهذا الخلاف في التضمين بالدم لا في التحلل؛ فإنه يحصل بالحلق في أي زمان أو مكان، فتح. وأما حلق العمرة فلا يتوقت بالزمان إجماعاً، هداية. وكلام الدرر يوهم أن قوله: في أيام النحر قيد للحج والعمرة، وعزاه إلى الزيلعي، مع أنه لا إيهام في كلام الزيلعي كما يعلم بمراجعته، (قوله: فدمان) دم للمكان ودم للزمان، ط، (قوله: لاختصاص الحلق) أي لهما بالحرم وللحج في أيام النحر، ط".

(باب الجنایات، ج: ۲، صفحہ: ۵۵۴،  ط: ایچ، ایم،  سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102693

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں