بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ہم جنس پرستی کی شریعت میں حد مقرر ہے؟


سوال

اسلام میں لواطت(ہم جنس پرستی ) کی کوئی حدمقرر ہے؟

جواب

ہم جنس پرستی انتہائی قبیح اور برا عمل ہےسابقہ امتوں میں سے حضرت لوط علی نبینا وعلیہ السلام کی امت پر اسی قبیح عمل کی وجہ سے عذاب آیا تھا ،اگر کوئی ہم جنس پرستی  کا عمل کرتا ہے تو اس کی سزا حاکم وقت کی صواب دیدپر ہے،وہ اگر مناسب سمجھے تو اسے قید کردے تاوقت یہ کہ وہ توبہ کرے،اگر وہ مجرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے کوڑے،تجویز کرے تویہ بھی درست ہےاور اگر جرم کی نوعیت مزید سنگین ہو تو اسے قتل بھی کرسکتا ہے  ۔

الدرمع الرد میں ہے:

(أو) بوطء (دبر) وقالا: إن فعل في الأجانب حد. وإن في عبده أو أمته أو زوجته فلا حد إجماعا بل يعزر. قال في الدرر بنحو ‌الإحراق بالنار وهدم الجدار والتنكيس من محل مرتفع باتباع الأحجار. وفي الحاوي والجلد أصح وفي الفتح يعزر ويسجن حتى يموت أو يتوب؛ ولو اعتاد اللواطة قتله الإمام سياسة.

قلت: وفي النهر معزيا للبحر: التقييد بالإمام يفهم أن القاضي ليس له الحكم بالسياسة قوله( بنحو الإحراق إلخ) متعلق بقوله يعزر. وعبارة الدرر: فعند أبي حنيفة يعزر بأمثال هذه الأمور. واعترضه في النهر بأن الذي ذكره غيره تقييد قتله بما إذا اعتاد ذلك. قال في الزيادات: والرأي إلى الإمام فيما إذا اعتاد ذلك، إن شاء قتله، وإن شاء ضربه وحبسه. ثم نقل عبارة الفتح المذكورة في الشرح، وكذا اعترضه في الشرنبلالية بكلام الفتح. وفي الأشباه من أحكام غيبوبة الحشفة: ولا يحد عند الإمام إلا إذا تكرر فيقتل على المفتى به. اهـ. قال البيري: والظاهر أنه يقتل في المرة الثانية لصدق التكرار عليه. اهـ

(کتاب الحدود، باب الوطء الذی یوجب الحد والذی لایوجبه، مطلب:في حکم اللواطة، ج:4، ص:27، ط:دار الفكر - بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144509102255

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں