گزشتہ دنوں وقت سے پہلے پیدا ہونے والے ایسے بچے جن کو اپنی ماں یا کسی رشتہ دار خاتون کا دودھ میسر نہ ہو، ان کی ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے ہیومن ملک بینک کے حوالے سے سوال کیا تھا، مختلف علماءکرام کی طرف سے تحفظات کی بنیاد پر اس ملک بینک کو اب تک قائم نہیں کیا گیا، حال میں ہی جامعہ اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن سے بھی دیگر علماء کرام کی تائید میں عدمِ جواز کا فتویٰ موصول ہوا(فتویٰ نمبر:144604100427)، اور ماضی قریب میں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کی طرف سے بھی ملک بینک کے قیام سے منع کیا گیاہے (فتویٰ نمبر:2604/40)،دوسری طرف ہمیں روزانہ کی بنیاد پر ایسے ضرورت مند بچوں کی جان بچانے کیلیے ممکنہ تدابیر اختیار کرنے کی فکر بھی لاحق تھی، اس لیے علماء کرام کی طرف سے منع کرنے کے بعد ملک بینک کے قیام کو معطل کرکے اس کی بجائے فتویٰ میں جو طریقہ بتایا گیا ہے (دائی خواتین کا انتظام کیا جائے) اس کو اختیار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس سوال میں اس متبادل کے خدوخال علماء کرام کے سامنے پیش کرنا مقصود ہے کہ کہیں اس متبادل میں شرعی لحاظ سے کوئی تسامح اور کوتاہی نہ رہ جائے ۔
متبادل کے بیان سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تمام ہسپتالوں میں جو طریقہ بالعموم رائج ہے اس کو بیان کردیا جائے۔ وقت سے پہلے جو بچے پیدا ہوتے ہیں یا جن کا وزن پیدائش کے وقت دو کلو سے کم ہوتا ہے اور ان میں دودھ چوسنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، ایسے تمام بچوں کو ٹیوب کے ذریعہ دودھ دیا جاتا ہے۔ ان بچوں کی مائیں اپنا دودھ فیڈر میں جمع کرکے اسٹاف کے حوالے کردیتی ہیں، اور یہ اسٹاف اس دودھ پر بچہ کے نام وغیرہ کا اسٹیکر لگا کر اس کو فریج میں رکھ دیتا ہے اور فیڈ کروانے کے وقت اسٹاف ہر بچہ کو اس کیلیے رکھا ہوا مخصوص دودھ ٹیوب کے ذریعہ پلاتا ہے۔ خود خواتین کیلیے پلانا عام طور سے ممکن نہیں ہوتا کیونکہ اول تو ٹیوب کے ذریعہ دودھ پلانا ان کیلیے مشکل ہوتا ہےکیونکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے (فیڈنگ ٹیوب بچہ کے معدہ میں ہی جانا ضروری ہے۔) پھر بچہ کو فیڈ کی ضرورت ہر دو سے تین گھنٹے بعد پڑتی ہے اور کسی بھی خاتون کیلیے کئی دن مستقل ہسپتال میں چوبیس گھنٹے موجود رہنا آسان نہیں ہوتا ۔ اس لیے وہ تقریباً ایک دن یا آدھے دن کی خوراک ایک ساتھ جمع کروادیتی ہیں۔ یہ طریقۂ کار تقریباً تمام ہسپتالوں میں ہوتا ہے۔
جن بچوں کو اپنی ماں یا کسی رشتہ دار خاتون کا دودھ میسر نہیں ہوتا اس کے گھر والے اس حوالے سے بھاگ دوڑ کرتے ہیں، اور کبھی پیسے دے کر اور کبھی منت سماجت کرکے دوسری خواتین کو راضی کرتے ہیں کہ وہ ان کے بچوں کو دودھ پلادیں، یہ کوشش کبھی کامیاب ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی۔اور اسی وجہ سے ہیومن ملک بینک کے قیام کا سوچا گیا تھا۔اب اگر اس ملک بینک کی بجائے یہ کام کیا جائے کہ جس مخصوص جگہ (فیڈنگ روم) میں یہ خواتین اپنے بچوں کیلیے دودھ فیڈر میں دیتی ہیں، وہاں ایک مسلم اسٹاف کی ذمہ داری لگادی جائے، جو ان تمام خواتین کے دودھ پر ٹیگ لگانے اور علیحدہ رکھنے کی موجودہ پریکٹس کے ساتھ ساتھ ان خواتین کو اس بات کی بھی ترغیب دیں کہ وہ کسی ایک بچہ کو دودھ پلانے کی ذمہ داری لے لیں۔جو خواتین راضی ہوجائیں ان کی تفصیلات نوٹ کرلی جائیں، لیکن ان سے فی الحال کسی اور بچے کے لیے دودھ نہ لیاجائے۔ پھر جب ضرورت پیش آئے تو ایک بچہ کیلیے ایک خاتون سے رابطہ کیا جائے کہ جس طرح آپ اپنے بچے کیلیے دودھ جمع کروارہی ہیں ایسے ہی ایک اور بچہ کیلیے بھی جمع کروادیں۔
ایسے بچے جن کو دودھ کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کو دودھ میسر نہیں ہوتا، ان کی تعداد ہر روز ہمارے زیرِ انتظام ہسپتال میں اوسطاً 6 سے 8 ہوتی ہے، جبکہ ان بچوں سمیت شیر خوار بچوں کی تعداد 50 سے زائد ہوتی ہے، اس لیے امید ہے کہ 6 سے 8 خواتین اس پر راضی ہوجائیں۔البتہ جو احتیاطی تدابیر ہیومن ملک بینک کے قیام میں اختیار کی گئیں تھیں ان کی بھی پوری پابندی کی جائےمثلاً:
1. یہ کوشش صرف ان بچوں کیلیے کی جائےجو وقت سے پہلے یا بہت کم وزن کے پیدا ہوئے ہوں ، اور ان کو اپنی ماں یا کسی دوسری رشتہ دار خاتون کا دودھ میسر نہ ہو۔
2. آن ڈیوٹی ڈاکٹر مندرجہ بالا باتوں کی تحریری تصدیق کریں۔
3. تمام کام کی نگرانی کسی عالمِ دین کے ذمہ ہو۔
4. تمام ڈیٹامحفوظ رکھا جائے ، اور دونوں خاندانوں کو تحریری ڈیٹا دینے کے ساتھ مسئلہ رضاعت بھی تحریری شکل میں دیا جائے اور زبانی مسئلہ بھی سمجھا دیا جائے۔
5. اس سارے کام کی کوئی علیحدہ سے فیس نہیں لی جائے گی، نہ ہی دودھ فراہم کرنے والی خاتون کو اجرت دی جائے۔
6. حتی الامکان مسلم بچوں کو غیر مسلم خواتین کا دودھ نہ دیاجائے۔
7. کوشش کی جائے گی کہ دودھ فراہم کرنے والی خاتون کا بچہ اگر لڑکا ہو تو ان کا دودھ کسی لڑکے کو ہی دیا جائے اور اگر لڑکی ہو تو جس بچہ کو ان کا دودھ دیا جائے وہ بھی لڑکی ہو۔
ان شرائط کے علاوہ اضافی شرط یہ بھی ہوگی کہ :
8. ایک خاتون کا دودھ صرف ایک بچہ کو ہی دیاجائے، مختلف خواتین کا دودھ مکس نہ کیا جائے۔
9. ضرورت پیش آنے کے بعد دودھ فراہم کرنے والی خاتون سے رابطہ کیا جائے، پہلے سے کسی بھی خاتون کا دودھ اس دوسرے بچہ کیلیے اسٹور کرکے نہ رکھا جائے۔
کیا ان تمام شرائط کے ساتھ اس متبادل پر شرعاً عمل کرنا درست ہے؟ کیونکہ معاملہ انسانی زندگی بچانے کا ہے اس لیے ملک بینک کی اجازت نہ ملنے کی صورت میں کسی متبادل کی سخت ضرورت ہے۔ اس متبادل کو اختیار کرنے کی صورت میں کئی سارے اعتراضات جو ملک بینک کے حوالے سے تھے ختم ہوجاتے ہیں، مثلاً :
· ضرورت پیش آنے سے پہلے انتظام کرلینا
· مختلف خواتین کے دودھ کو یکجا کرنا
· ملک بینک کیلیے دودھ فراہم کرنے والی خواتین کی عدم دستیابی
· بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت کی رعایت نہ ہونا وغیرہ
ان تمام خرابیوں کے دور ہوجانے کے بعد بھی جو خدشہ رہ جاتا ہے کہ ادارہ تو تمام ریکار ڈ محفوظ کرسکتا ہے لیکن ممکن ہے لوگ اس کی رعایت نہ کریں، کسی انسانی جان بچانے کے وقت اس موہومہ خدشہ کا تحمل کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ یہ خدشہ فی نفسہ عرب میں جس رضاعت کا دستور تھا بہر حال اس میں بھی تھا، بلکہ صرف وہم کے درجے میں نہیں ، ایک بار ایسا قصہ پیش آیا بھی تھا کہ ایک خاتون نے دعویٰ کردیا تھا کہ میں نے شوہر اور بیوی دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ لیکن اس واقعہ کے بعد بھی رضاعت سے منع نہیں کیا گیا،صرف اس بات پر زوردیا گیا کہ اس کو لکھ کر محفوظ کرلیا جائے، اگرچہ لکھنے کے بعد بھی فی نفسہ احتمال باقی رہتا ہے کہ بیس سال بعد یہ لکھا ہواموجود نہ ہو اور انجانے میں دو رضاعی بہن بھائی کی شادی ہوجائے لیکن اس وہم کا اعتبار نہیں کیا گیا۔
کیا ان تمام تر تفصیلات کوسامنے رکھتے ہوئے اور مذکورہ بالا شرائط پر عمل کرتے ہوئے ہیومن ملک بینک کی بجائے اس نظام کو بطور متبادل کے استعمال کرنا شرعاً درست ہے؟
سابقہ استفتاء میں عورتوں کے دودھ جمع کرنے اور باقاعدہ ملک بینک قائم کرنے کے حوالہ سے استفسار کیا گیا تھا اس کا جواب یہ دیا گیا کہ مذکورہ طرز پر ملک بینک کا قیام ناجائز ہے؛ اس لیے کہ اس میں شرعی اصولوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، اس کی تفصیل سابقہ فتویٰ میں ذکر کی گئی۔
اب سوال ہذا کا حاصل یہ ہے کہ اگر باقاعدہ خواتین کے دودھ کو جمع نہ کیا جائے، بلکہ ضرورت کے متحقق ہونے کے بعد (یعنی: بچے کے قبل از وقت پیدا ہو جانے اور دودھ کا انتظام نہ ہونے کی صورت میں) ہسپتال میں موجود کسی خاتون کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ اپنے بچے کے علاوہ ایک اور بچے کے لیے دودھ فراہم کر دیں، تو کیا یہ صورت اختیار کرنا جائز ہے؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ:
سوال میں جو شرائط ذکر کی گئی ہیں اگر ان تمام شرائط کی رعایت رکھی جائے اور تحققِ ضرورت سے پیشتر دودھ جمع نہ کیا جائے، بلکہ کسی بھی بچے کی پیدائش کے بعد اور اس کے لیے دودھ مہیا نہ ہونے کی صورت میں کوئی خاتون اس بات پر آمادگی کا اظہار کرتی ہے کہ میں ایک بچے کے لیے دودھ مہیا کر دوں گی تو مذکورہ صورت اختیار کرنے کی اجازت ہو گی۔
خصوصی طور پر شرط نمبر4 اور 9 کا خاص خیال رکھا جائے، یعنی ضرورت پیش آنے کے بعد دودھ فراہم کرنے والی خاتون سے رابطہ کیا جائے، پہلے سے کسی بھی خاتون کا دودھ اس دوسرے بچہ کے لیے اسٹور کرکے نہ رکھا جائے ،بچے کو جس خاتون کا دودھ پلایا جائے اس کا ڈیٹا محفوظ رکھا جائے اور دونوں خاندانوں کو اس کا ریکارڈ فراہم کیا جائے، مذکورہ طریقے پر اگر کام کیا جائے تو امید ہے کہ کسی شرعی ضابطہ کی خلاف ورزی لازم نہ آئے گی۔
درر الحکام میں ہے:
"درء المفاسد أولى من جلب المنافع.
أي: إذا تعارضت مفسدة ومصلحة يقدم دفع المفسدة على جلب المصلحة، فإذا أراد شخص مباشرة عمل ينتج منفعة له، ولكنه من الجهة الأخرى يستلزم ضررا مساويا لتلك المنفعة أو أكبر منها يلحق بالآخرين، فيجب أن يقلع عن إجراء ذلك العمل درءا للمفسدة المقدم دفعها على جلب المنفعة؛ لأن الشرع اعتنى بالمنهيات أكثر من اعتنائه بالمأمور بها. مثال: يمنع المالك من التصرف في ملكه فيما إذا كان تصرفه يورث الجار ضررا فاحشا."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية ، جلد : 1 ، صفحه : 41 ، طبع : دار الجيل)
درر الحکام میں ہے:
"(المادة 22) :
ما أبيح للضرورة يتقدر بقدرها.
أي أن الشيء الذي يجوز بناء على الضرورة يجوز إجراؤه بالقدر الكافي لإزالة تلك الضرورة فقط، ولا يجوز استباحته أكثر مما تزول به الضرورة. مثلا: لو أن شخصا كان في حالة الهلاك من الجوع يحق له اغتصاب ما يدفع جوعه من مال الغير لا أن يغتصب كل شيء وجده مع ذلك الغير."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية ، جلد : 1 ، صفحه : 38 ، طبع : دار الجيل)
البنایہ میں ہے:
"ما يؤدي إلى الحرام يكون حراما."
(کتاب الاشربة ، جلد : 12 ، صفحه : 381 ، طبع : دار الكتب العلمية)
اعلام الموقعین میں ہے:
"ومن تأمل مصادرها ومواردها علم أن الله تعالى ورسوله سد الذرائع المفضية إلى المحارم."
(فصل في سد الذرائع ، جلد : 3 ، صفحه : 110 ، طبع : دار الكتب العلمية)
فتح القدير ميں هے:
"والواجب على النساء أن لا يرضعن كل صبي من غير ضرورة، وإذا أرضعن فليحفظن ذلك ويشهرنه ويكتبنه احتياطا."
(كتاب الرضاع ، المجلد : 3 ، الصفحه : 439 ، الناشر : شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)
الاختيار لتعليل المختار ميں هے:
"ويجب على النساء أن لا يرضعن كل صبي من غير ضرورة، فإن فعلن فليحفظنه أو يكتبنه احتياطا."
(كتاب الرضاع ، المجلد : 3 ، الصفحه : 120 ، الناشر : مطبعة الحلبي)
الجوھرۃ النیرۃ میں ہے:
"وعلى المرأة أن لا ترضع كل صبي من غير ضرورة فإن أرضعت فلتحفظ ولتكتب احتياطا حتى لا ينسى بطول الزمان."
(كتاب الرضاع ، المجلد : 2 ، الصفحه : 28 ، الناشر : المطبعة الخيرية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144606100020
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن