بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ہیومن ملک بینک کے قیام کا حکم


سوال

نومولود بچوں  کے لیے انسانی دودھ کی اہمیت  اور ہیومن ملک بینک کا پس منظر

ماں کا دوھ بچے کے لیے ایک انمول دولت ہے:

نومولود بچوں کے لیے ماں کا دودھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انمول تحفہ  اور بہت بڑی نعمت ہے۔ اس میں بچے  کے لیے تمام ضروری غذائی اجزاء مناسب مقدار میں اور بالکل موزوں درجۂ حرارت (temperature) کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔ پیدائش کے بعد انسانی نشوو نما کا یہ واحد ذریعہ ہے، جو انسان کو صحت مند بھی رکھتا ہے اور مختلف بیماریوں  اور انفیکشن سے محفوظ رہنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ یہ قدرت کا ایک نظام ہے کہ جب بچہ اس دنیا میں آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو براہِ راست سکھادیا جاتا ہے کہ اپنی غذا کیسے حاصل کرنی ہے۔ اگر بچہ پیدائش کے بعد خود سے چوسنا شروع نہ کرے تو کوئی طاقت ، ٹیکنالوجی ایسی نہیں جو اس ننھی سی جان کو یہ سکھا سکے۔

ماں کے علاوہ کسی دوسرے دودھ کی ضرورت:

البتہ کچھ بچے جو وقت سے پہلے پیدا ہوجائیں ، جن کو میڈیکل کی اصطلاح میں (premature baby) یا (preterm baby) کہا جاتا ہے،یعنی بچوں کی نارمل پیدائش   کا دورانیہ جو 34 ہفتے یا اس سے زیادہ ہوتا ہے، اس سے پہلے پیدا ہوجاتے ہیں۔پھر ان میں تین درجات (levels) ہیں۔پہلا درجہ 32 ہفتوں کے بعد سے  لے کر 34 تک کا ہے۔ ایسے بچوں کو (Moderately preterm) کہتے ہیں، 28 ہفتوں سے لے کر 32 ہفتوں تک کے بچوں کو (Very preterm) کہتے ہیں جب کہ 28 ہفتوں سے پہلے جو بچے پیدا ہوجائیں ان کو (Extremely preterm) کہتے ہیں۔ان میں سے بھی جو بچے 26 ہفتوں کے بعد ہوں ان کے بارے میں بھی امید ہوتی ہے کہ اگر ان کا پورا خیال رکھا جائے  تو شاید یہ بچ جائیں ، لیکن ان کے بچاؤ کا تناسب (survival rate) پاکستان میں اتنا اچھا نہیں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب کافی بہتر ہے، اور وہاں 20 ہفتوں کے بعد والے بچوں کو بچانے پر بھی محنت کی جارہی ہے۔ ہمارے ہاں  (Extremely preterm) بچوں کواگر سانس نہ آرہی ہو تو مصنوعی سانس کی نلکی نہیں لگائی جاتی؛ کیوں کہ  اس سے بچہ کو محض تکلیف ہوگی اس کے بچنے کی زیادہ امید نہیں ہوتی۔

ان بچوں کو جو 26 ہفتوں کے بعد یا 28 ہفتوں کے بعد  پیدا ہوئے ہوں ، ان پر اگر محنت کی جائے، اور انفیکشنز سے بچایا جاسکے تو ان کے بچنے کی امید بہت بڑھ جاتی ہے۔خاص طور سے وہ بچے جو 28 ہفتوں کے بعد ہوں۔ان بچوں کو انفیکشنز سے بچانے  کے لیے سب سے ضروری یہ ہے کہ  ان کو صحت مند رکھا جائے، اور عمر کے حساب سے ان کا وزن اچھا بڑھ جائے ۔ اور اس مقصد  کے لیے ان کو کسی دوائی کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ صرف ماں کے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے، اگر وہ ان کو ان کی ضرورت کے مطابق پوری مقدار میں مل جائے تو ان کی صحت برقرار رہتی ہے اور  ان کا  وزن بڑھ جاتا ہے۔

لیکن یہاں مشکل یہ پیش آتی ہے  کہ جن بچوں کی وقت سے پہلے پیدائش ہوجائے عام طور سے ایسے بچوں کی ماں کو شروع کے کچھ عرصہ دودھ نہیں آتا، یا پھر ان کی طبّی حالت اس قابل نہیں ہوتی  کہ وہ بچے کو دودھ پلاسکیں، مثلاً بچہ کی پیدائش آپریشن سے ہوئی(اور عام طور سے یہی صورتحال پیش آتی ہے) ماں الگ ہسپتال میں داخل ہے،  اور بچہ کسی دوسرے ہسپتال میں ہے یا انتہائی نگہداشت وارڈ (NICU)میں ہے، عام طورسے ایسی صورت میں ماں کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلاسکیں۔اسی طرح بعض اوقات حمل کے دوران یا پیدائش کے بعد ماں کچھ ایسی دوائیں استعمال کر رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے بچے کو دودھ  پلانا بچےکی صحت  کے لیے صحیح نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ ایک صورت اس مشکل کے پیش آنے کی یہ بھی ہوتی ہے کہ پیدائش کے وقت بچے کا وزن  دو کلو سے بھی کم ہوتا ہے ایسے بچوں کو (LBW یعنی Low birth weight) کہتے ہیں۔ان دونوں قسم کے بچوں (LWB اور preterm ) بچوں میں خوددودھ چوسنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔اس لیے ان کو ٹیوب کے ذریعے دودھ دیا جاتا ہے۔اور یہ بھی ماں کے دودھ نہ آنے کی ایک بڑی وجہ ہے ، کیونکہ قدرتی طور پر  جب بچہ ماں کی چھاتی سے دودھ پینے کیلیے چوستا ہے تو دماغ کو سگنل ملتا ہے اور ایک ہارمون جس کو (prolactin)کہتے ہیں، یہ  ریلیز ہوکر کام شروع کردیتا ہے اور اس کی وجہ سے عورت کو دودھ آنا شروع ہوجاتا ہے۔یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کا نتیجہ ہے کہ عورت کے حاملہ ہونے سے پہلے یہ ہارمون اس میں نہیں ہوتا، اور بچہ کی پیدائش کا وقت قریب آنے پر یہ بننا شروع ہوتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ مختلف وجوہات کی بنیاد پر بچے کو ماں کا دودھ میسر نہیں ہوتا۔ایسے بچوں کی ضرورت پوری کرنے کیلیے شروع زمانہ سے ہی دودھ پلانے والی مختلف خواتین کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں ۔پھر گزشتہ صدی میں اس کے متبادل (alternative) کے طور پر فارمولا ملک(ڈبے کا دودھ ) پیش کیا گیا۔

بطور متبادل ،فارمولا ملک :

مذکورہ بالا ضرورت کو پورا کرنے  کے لیے 1943ء میں برطانیہ میں  فارمولا ملک تیار کیا گیا ، اور بہت جلد ایک مستقل انڈسٹری کی شکل اختیار کرگیا۔ لیکن جتنی تیزی سے اس نے ترقی کی اسی تیزی سے اس کے نقصانات سامنے آنے شروع ہوگئے۔ اصل میں ان بچوں میں دفاعی نظام بہت کمزور ہوتا ہے، یہ کسی بھی بیرونی چیز (foreign body) کو قبول   نہیں کرتے۔ صرف  انسانی دودھ ہی وہ واحدچیز ہے جو بآسانی ان کو ہضم بھی ہوجاتا ہے، اور ان کی نشونما کا باعث بھی بنتا ہے، خاص طور سے ابتدائی چھ ماہ میں ان کو ماں کے دودھ کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ فارمولا ملک کے ذریعے اگر چہ ان کو مطلوب غذائیت فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہےلیکن عام بچوں کے مقابلے میں ان بچوں میں یہ مسئلہ زیادہ آتا ہے کہ ان  کا جسم اس کو قبول نہیں کرتا، جس کی وجہ سے ان کی بڑی آنت میں سوزش آجاتی ہے ، اور وہ پھول جاتی ہے، اور کبھی وہ آنت پھٹ بھی جاتی ہے۔ ایسی صورت میں بہت قوی امکان ہوتا ہے کہ بچہ کی جان چلی جائے، اور اگر وہ اس وقت بچ بھی گیا(survive) کرگیا تو بھی اس بات کا قوی اندیشہ رہتا ہے کہ مستقبل میں کسی مستقل معذوری کا شکار ہوجائے۔

بطور متبادل دوسری خواتین کا دودھ:

اس ضرورت  کے لیے ایک قدیم طریقہ جو بہت بہتر  ہے کہ ان بچوں کو کسی دوسری خاتون کا دودھ فراہم کیا جائے، اس میں ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں جن کے ہاں بچہ کی ولادت نارمل طریقے سے ہوئی اور قدرتی طور پر ان کو بچہ کی ضرورت سے زیادہ دودھ آتا ہے، بلکہ اس اضافی دودھ کی وجہ سے بعض اوقات ان کو تکلیف ہوتی ہے اور چھاتی کے کینسر کے خدشات بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالی ٰ کی طرف سے ملی ہوئی اس نعمت کو ضائع ہونے ، دودھ پلانے والی خاتون کو مختلف بیماریوں سے بچانے اور  اس بچہ کی ضرورت پوری کرنے  کے لیے یہ بہت آئیڈیل اور بہترین متبادل ہے۔ 

ہیومن ملک بینک کا پس منظر اور اس کی ضرورت:  

اس انسانی دودھ کے حاصل کرنے کی پھر دو صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ضرورت کے وقت کسی ایسی خاتون کا انتظام کیا جائے جو بچہ کو دودھ پلادیں۔ یہ قدرتی نظام کے بہت قریب اور ایسی صورت ہےجس میں کسی کو اختلاف نہیں کہ یہ سب سے بہتر صورت ہے۔ لیکن اس میں چند مشکلات سامنے آئیں کہ جہاں مسئلہ ایک دو بچوں کا ہو  وہاں تو ضرورت کے وقت ایسی خواتین کا ملنا نسبتاً کافی آسان ہوتا ہے۔ لیکن جہاں ایسے بچوں کا انتہائی نگہداشت کا وارڈ (NICU) ہو ، اور وہاں موجود بچوں کی ایک بڑی تعداد  مستقل رہتی ہو۔وہاں ایسی خواتین کا انتظام کرنا بعض اوقات بچے کے سرپرست اور ہسپتال کی انتظامیہ کیلیے آسان نہیں ہوتا۔

ایسی صورت میں عام طور سےہسپتال کی انتظامیہ چونکہ کوئی مستقل انتظام نہیں کرسکتی اس لیے بچہ کے گھر والوں سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اپنے طور پر انتظام کرلیں۔ اور  لوگ خود اس کا انتظام کرتے ہیں۔ لیکن لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کا انتظام نہیں کرپاتی، جس کی مختلف وجہ ہوسکتی ہیں، مثلاً وہ کسی دوسرے شہر سے آئے ہوئے ہیں،یا وہ یہاں  کے رہائشی ہیں لیکن ان کی جان پہچان یا خاندان میں کوئی ایسی خاتون نہیں ہیں جو اس بچہ کو دودھ پلاسکیں۔ یا موجود ہیں لیکن وہ اس خدمت  کے لیے راضی نہیں ہیں۔ایسی صورت میں صرف انسانی  دودھ میسر نہ ہونے کی وجہ سے کئی معصوم جانوں کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ (اور یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ پاکستان نومولود بچوں کے mortality rate یعنی شرح اموات  میںNPR کی رپورٹ کے مطابق  top three ممالک میں شمار ہوتا ہے ۔) 

اس ضروت کو سامنے رکھتے ہوئے سب سے پہلے آسٹریا میں 1909ء میں پہلا ہیومن ملک بینک قائم کیا گیا۔ پھر کچھ عرصہ بعد 1960ء میں اس کو زیادہ عرصہ تک محفوظ رکھنے اور منتقلی میں آسانی کی غرض سے  مختلف مراحل سے گذار کر پاؤڈر کی شکل میں لایا گیا۔ چنانچہ اس وقت بھی امریکہ میں سانفرانسسکو میں ایک ادارہ ہے، جہاں دنیا بھر کی خواتین اپنا دودھ فروخت کرتی ہیں اور وہ ادارہ اس انسانی دودھ کو پاؤڈر فارم میں ایکسپورٹ کرتا ہے، یہ مڈل ایسٹ میں بہت عام ہے۔ اس دودھ کو (Prolacta) کہتے ہیں۔ اس کا استعمال عام طور سے کیلریز (calories)بڑھانے کیلیے ہوتا ہے اور اس کو ماں کے دودھ کے ساتھ ملا کر دیا جاتا ہے۔البتہ ہمارے ملک میں اس دودھ کا استعمال پاؤڈر شکل میں اس لحاظ سے ممکن نہیں کہ یہ غیر معمولی طور پر مہنگا پڑتا ہے۔ اور ایک اونس کی لاگت 100 سے 150 ڈالر ہے، اس حساب سے ایک بچہ کی ایک ہفتہ کی خوراک کا خرچہ 10000 ڈالر آتا ہے جو ظاہر ہے یہاں کے لوگ اور ادارے برداشت (afford)نہیں کرسکتے۔

اسلامی دنیا میں ہیومن ملک بینک :

دنیا میں ملک  بینک کا تصور مختلف حالات،عوامل اور تجربات پر تدریجاً  (gradually)آتا گیا اور ویسٹرن کنٹریز اور ان کے بعد کئی غیر مسلم مشرقی ممالک میں بہت تیزی سے پھیل گیا۔البتہ اسلامی ممالک میں اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی جس کی وجہ مسئلہ رضاعت اور اس کے نتیجے میں اختلاطِ نسب کے حوالے تحفظات تھے۔  اگرچہ رضاعت کا تصور اسلام  کے لیے اجنبی نہیں ہے، بالخصوص عرب جو قرآن و احادیث مبارکہ کے اوّلین مخاطب ہیں وہاں اپنے بچوں کو بہتر نشو و نما  کے لیے گاؤں دیہات بھیجنا، یہ  ایک عام بات تھی۔ہر سال مختلف دیہات کی خواتین شہر مکہ آتیں اور وہاں کے بچوں کو اپنے ساتھ لے جاتیں۔ اور یہ بچے ان رضاعی ماؤں کا دودھ پیتے تھے۔چنانچہ دائی حلیمہ رضی اللہ عنہا کا اپنی ساتھی خواتین کے ساتھ اسی غرض  کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لانا تاریخ کا مشہور واقعہ ہے،اور یہ ان خواتین کا معمول کا واقعہ تھا کہ ہر سال شہر آتیں اور بچوں کو ساتھ لے جاتیں اس کے علاوہ بھی مختلف مصلحتوں کی بنیاد پر دوسری خواتین سے دودھ پلوایا جاتا چنانچہ نبی کریم ﷺ نے دائی حلیمہ ؓ کے علاوہ ابو لہب کی باندی حضرت ثوبیہ ؓ کا بھی دودھ پیا تھا، اور  حضرت ثوبیہ ؓ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی دودھ پلایا تھا جو کہ آپ ﷺ کے چچا تھے، اور اس لیے یہ چچا آپ کے رضاعی بھائی بھی تھے، نیز ان صحابیہ خاتون رضی اللہ عنہا نے ا حضرت ابو سلمہ المخزومیؓ کو بھی دودھ پلایا تھا۔

حاصل یہ کہ اسلام میں یہ تصور  نہ تو غیر معروف ہے نہ کوئی ایسا مکروہ اور ناپسندیدہ فعل ہے جس کی اجازت صرف انتہائی نا مساعد حالات میں دی گئی ہو، بلکہ یہ معمول کی عام سی بات تھی۔البتہ عرب کے حالات اور غیر معمولی حافظہ کی وجہ سے ان سارے رشتوں کو لکھنے کا رواج نہیں تھا۔ اول تو اس وقت آبادی بہت کم تھی، دوسرا عرب وہ قوم تھی جس کو اپنے گھوڑوں تک کے پورے پورے نسب یاد ہوتے تھے، طویل اشعار پر مبنی طویل قصیدے ایک ہی نشست میں یاد کرلیا کرتے تھے۔

پاکستان میں ہیومن ملک بینک کی بنیاد:

نومولود بچوں کے حوالے سے مذکورہ بالا مسئلہ پاکستان میں بھی  کافی عرصہ سے پیش آرہا تھا،ورلڈ بینک گروپ کی 2022ءکی رپورٹ کے مطابق ہر 1000 میں سے39نومولود بچے مرجاتے ہیں  ، اور یونیسیف کی 2010ء کی رپورٹ کے مطابق ہر 100 میں سے 16 بچے preterm پیدا ہوتے ہیں ۔مختلف ماہرین اس  کے لیے مناسب حل کی تلاش اور جستجو میں رہے ہیں۔ دیگر اسلامی ممالک جہاں ہیومن ملک بینک قائم کرنے کے حوالے سے کوشش کی گئی تھی۔ان  کی کوششوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہاں اس بات پر غور کیا گیا کہ کیا پاکستان میں ایسا ملک بینک قائم کرنا ممکن ہے؟ اوراس حوالے سے اسلامی تعلیمات کیا ہیں کیونکہ ہمارے دین نے دوسروں کی مدد کرنے کی بہت ترغیب دی ہے لیکن ایسی مدد کرنا جس میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی ہوتی ہو، ہرگز جائز نہیں۔ ایسی مدد صرف ظاہری طور پر اچھی معلوم ہوسکتی ہے لیکن جب اسلام نے اس سے منع کیا ہے تو ممکن نہیں کہ وہ انسانیت کیلیے بہتر چیز ہو۔ چنانچہ پروفیشنلز کے ساتھ ساتھ علماء کرام کی طرف رجوع کی ضرورت بھی محسوس کی گئی۔ اس سلسلہ میں ایک طریقہ ٔ کار بنایا گیا ہے ، جس میں چند شرائط اور احتیاطی پہلوؤں کو اختیار کرتے ہوئے  انسانی دودھ کو محفوظ کرنے کیلیے  ہیومن ملک بینک قائم کرنے کا ارادہ ہے۔ 

SICHN میں ہیومن ملک بینک قائم کرنے  کے لیے تیار کی گئی شرائط اور ایس او پیز کا خلاصہ

1. جن خواتین سے دودھ لیا جائے گا، اور جن بچوں کو دیا جائے گا ان سب کا مکمل ڈیٹا(نام، ولدیت،شناختی، پتہ ، فون نمبروغیرہ)  ویب سائٹ اور ہارڈ کاپی کی شکل میں ہسپتال کے ریکارڈ میں محفوظ کرنے کے ساتھ (بچے اور خواتین دونوں کے )متعلقہ خاندان کے ساتھ شئیر کیا جائے گا۔

2. دودھ کی ایک لاٹ میں زیادہ سے زیادہ 3 سے 4 خواتین کادودھ شامل کیا جائے گا، اور اس سے صرف ایک بچہ کو دودھ دیا جائے گا، البتہ ناگزیر حالت میں ایک لاٹ سے 2 بچوں کو دینے کی نوبت آسکتی ہے اور اس صورت میں کوشش کی  جائے گی کہ دونوں بچے لڑکے ہوں یا دونوں لڑکیاں ہوں، اور دونوں بچوں کا ڈیٹا متعلقہ خواتین کے ساتھ شئیر کیا جائیگا۔

3. اس دودھ کی فراہمی کے بدلے کوئی فیس نہیں لی  جائے گی، نہ ہی دودھ عطیہ کرنے والی خواتین کو اس کے بدلے کوئی رقم یا اجرت فراہم کی  جائے گی۔ 

4. حتی الامکان مسلم بچوں کو غیر مسلم خواتین کا دودھ نہیں دیا جائے گا۔

5. ڈیٹا شئیر کرنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ خاندان کے افراد کو مسئلہ رضاعت زبانی بھی سمجھایا جائے گا۔

6. تمام طبی پہلوؤں اور احتیاط کو مدنظر رکھا  جائے گا۔

7. اس ملک بینک سے دودھ کی فراہمی صرف ان بچوں کو کی  جائے گی جن کو واقعی ضرورت ہو، جس کا معیار یہ ہے کہ  وہ بچہ Preterm ہو ، اپنے طبعی وزن سے کم ہو، یا دودھ چوسنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، اور آن ڈیوٹی ڈاکٹر تحریری طور پر اس بات کی تصدیق کردیں، اور کوئی خاتون میسر نہ ہوں جو اس کو براہِ راست دودھ دے سکیں۔

8. ان باتوں پر عمل در آمد باقاعدہ کسی عالمِ دین ،مفتی  کی زیرِ نگرانی کیا جائے گا۔

9. یہ دستاویز اس مخصوص ادارے  کے لیے ہے، کسی دوسرے ادارے کو اگر ہیومن ملک بینک کی ضرورت پیش آئے تو علماء کرام سے اپنے ادارے کے لیے مستقل طور پرعلیحدہ سے اجازت حاصل کرنی ضروری ہوگی۔

10. جو خواتین ایک دفعہ ملک ڈونیشن کرچکی ہوں ، اگر وہ دوبارہ کسی دوسرے بچے  کے لیے ملک ڈونیشن کرنا چاہیں تو اول تو کوشش کی جائے کہ ان سے دوبارہ حتی الامکان ڈونیشن نہ لی جائے، اور اگر مجبوراً لینے کی نوبت آجائے تو اس بات کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جائے، اور خاتون کےعلاوہ پچھلے بچے اور موجود بچے کے گھر والوں کا ڈیٹا بھی دونوں بچوں کے خاندان میں شئیر کیا جائے، نیز اس بات کا لازمی اہتمام کیا جائے کہ دوبارہ آنے والی خاتون کی ملک ڈونیشن اگر بچہ(Male) کو دی گئی تھی تو اس بار بھی بچہ(Male) کو ہی دی جائے اور اگر پہلے بچی  کے لیے استعمال ہوئی تھی تو آئندہ بھی صرف بچیوں  کے لیے ہی استعمال کی جائے۔

11. اگر کسی بھی مرحلہ پر ان شرائط کی پابندی نہیں پائی گئی، اور تنبیہ کے باوجود اس کو درست نہیں کیا گیا تو اسلامی نظریاتی کاؤنسل اور علماء کرام اپنی دی ہوئی اجازت واپس لینے کا پورا اختیار رکھتے ہیں۔

آپ حضرات علماء کرام سے سوال یہ ہے کہ کیا نومولود بچوں کی جان بچانے  کے لیے اس طرح  کا شعبہ مندرجہ بالا اصول و ضوابط کے ساتھ کھولا جاسکتا ہے؟

اور اگر یہ شرعاً درست نہیں تو اس  میں مزید کیا تبدیلی لائی جائے ؟

جواب

سوال میں ہیومن ملک  بینک کے قیام کے لیے جس بات کو بنیاد بنایا گیا ہے وہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے لیے ماں کے دودھ کا  ضروری ہونا ہے، یہ بات ایک مسلم حقیقت ہے کہ غذائیت، شفافیت اور افادیت میں ماں کے دودھ کا کوئی بدل نہیں، یہ دودھ ہر بچہ کے لیے ناگزیر ہے، خاص طور پر وہ بچہ جو اپنے وقت سے پہلے پیدا ہوا ہو اس کے لیے اس دودھ کی ضرورت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے، ان سب باتوں کی نہ صرف یہ کہ شریعت نے رعایت رکھی ہے، بلکہ اس کا بدل بھی دیا ہے، چناں چہ کسی بھی بچے کے لیے ضرورت کے موقع پر اپنی ماں کے علاوہ دوسری عورتوں کے دودھ کو پینا جائز رکھا گیا ہے(1)؛ تا کہ نومولود کی ضرورت بسہولت پوری ہو سکے اور اس میں کسی قسم کی دقت پیش نہ آئے۔

اب غور کرنےکی بات یہ ہے کہ کیا مذکورہ ضرورت کے پیشِ نظر ہیومن ملک بینک کا قیام درست ہو گا؟شریعت کی روشنی میں اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا کرنا درست نہیں، اس کی تفصیل  یہ ہے کہ فقہاء کی تصریح کے مطابق  بچوں کو ماں کا دودھ پلانا محض ضرورت  کی وجہ سے  جائز قرار دیا گیا ہے، ورنہ انسان کا دودھ انسان کا جزء ہونے کی وجہ سے قابلِ احترام اور نا قابلِ استعمال ہونا چاہیے تھا، (2) پھر جب ضرورت کی وجہ سے اس کے استعمال کو جائز قرار دیا گیا ہے تو ضرورت کے بقدر ہی اس کی اجازت دی جائے گی (3) اور  ضرورت  اس  صورت  میں پوری ہو جاتی ہے جب بچے کو ماں یا ماں کے علاوہ کسی دوسری عورت  کا دودھ براہِ راست پلا دیا جائے، جیسا کہ ضرورت اور مجبوری کے موقع پر جان بچانے کے لیے حرام اشیاء کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے، (4) لیکن یہ اجازت ایک محدود مقدار میں ہے، (5)  یہ مطلب نہیں کہ باقاعدہ حرام کھانوں کے لیےادارے کھول دیے جائیں اور حرام کھانوں کے ضرورت مند آ کر اس کو حسبِ ضرورت لے جایا کریں۔

اسی وجہ سے فقہاء نے صراحت فرمائی ہے کہ مدتِ رضاعت کے بعد ماں کا دودھ پلانا حرام ہے، اس لیے کہ یہ انسان کا جزء ہے، محض ضرورت کی بنیاد پر اس کا استعمال روا رکھا گیا تھا، یہ ضرورت مدتِ رضاعت کے اندر پائی گئی تو اجازت بھی دی گئی، ضرورت پوری ہونے کے بعد استعمال کی اجازت نہ ہو گی۔(6)

ضرورت کے موقع کے لیے جو  اجازت دی جاتی ہے ان کو ضابطہ کی شکل نہیں دی جاتی، ورنہ وہ رسمی بن کر معمول بن جایا کرتی ہیں،  اور مسئلہ ہذا میں اگر ماں کا دودھ مختلف خواتین سے جمع کر کے متفرق بچوں کو دیا جانے لگا تو اس سے رضاعی رشتوں میں خلط کا بہت قوی اندیشہ ہے  اور رضاعت کے باب میں  اگر کبھی کوئی شبہ پیدا ہو جائے تو اس کا بھی اعتبار کرتے ہوئے رضاعی رشتہ کو ثابت مانا جاتا ہے، جیسا کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک سیاہ فام خاتون نے یہ دعوی کیا کہ انہوں نے حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کو دودھ پلایا ہے تو حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے اس بات کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا اور مسکرا کر فرمایا: اب جب کہ ایک بات کہہ دی گئی تو اب اپنی بیوی کو اپنے سے جدا کر دے(7)، یہی علت بینک ہذا کے قیام کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ معلوم ہوتی ہے۔

نیز فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ عورتوں پر لازم ہے کہ دوسری عورتوں کے بچوں  کو بغیر کسی ضرورت کے  دودھ نہ پلائیں، لیکن اگر کسی وجہ سے دودھ پلا دیا ہو تو اس کو اہتمام کے ساتھ یاد رکھنا چاہیے یا لکھ لینا چاہیے (8)  کیوں کہ دودھ پلانے کی وجہ سے دودھ پلانے والی عورت اس بچے کی ماں بن  جاتی ہے  اور  اس کے حقیقی  بچے دودھ پلائے گئے  بچوں کے بھائی  بہن بن جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا آپس میں رشتہ اور نکاح جائز نہیں ہوتا۔(9)

باقی رشتوں کو خلط سے  محفوظ کرنے کے لیے سوال میں جن شرائط کا ذکر کیا گیا ہے وہ شرائط واقعۃً باریک بینی سے مرتب کی گئی ہیں، اور سائنس کے اس دور میں ان شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے تمام ریکارڈ کو محفوظ رکھنا کچھ دشوار نہیں، لیکن  ہسپتال انتظامیہ اور ادارے کے سامنے مذکورہ مسئلہ اہمیت کا حامل ہے اس لیے وہ تو اس کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ہر چیز کو مرتب بھی کریں گے، محفوظ بھی رکھیں گے اور دودھ لینے والوں کو مسئلہ سے آگاہ بھی کریں گے، لیکن قوی اندیشہ  ہے کہ دودھ لینے والے ان باتوں کا اہتمام نہ کریں، ریکارڈ محفوظ نہ رکھ سکیں یا  کچھ عرصہ تک ریکارڈ محفوظ رکھنے کے بعد مزید کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد وہ ان مسائل کو بھلا بیٹھیں یا دودھ لینے والے تو ان مسائل کا اہتمام کریں اور ان کی اولاد مسئلہ کی حساسیت سے ناواقف ہونے کی بناء پر اس میں لا پرواہی کرنے لگیں۔

پھر سوال میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا کہ ماں کا دودھ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال بیسیوں قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے وفات پا جاتے ہیں جس کی وجہ سے ملک بینک کا قیام ناگزیر ہے، لیکن یہ دلیل بھی کمزور ہے،  اس کا کچھ بیان اشارۃً گزشتہ سطور میں ہوا، جس کا حاصل یہ ہے کہ  ضرورت کی وجہ سے جو امور جائز قرار دیے جاتے ہیں ان میں ضرورت کے تحقق سے پہلے اس کی تیاری اور اس کا نظم بنا دینا شرعی اصولوں کی رو سے درست نہیں، ضرورت کے تحقق کے بعد ہی شرعی حدود کے اندر اس کا انتظام کیا جائے گا اور اس انتظام سے مراد یہ ہے کہ کسی ایسی خاتون کا بندوبست کر دیا جائے جو بچہ کو دودھ پلا دے،   بچوں کی پیدائش سے پہلے محض موہومی بیماری اور متوقع ضرورت کے پیشِ نظر شرعی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ماؤں کا دودھ جمع کرنا اور  بینک کا انتظام کرنا شرعی اصولوں کے خلاف ہونے کی وجہ سے  ناجائز  ہو گا۔

شرائط میں سے شرط نمبر 10 میں یہ لکھا گیا کہ ایک خاتون کا دودھ ایک مرتبہ اگر لڑکے کے لیے دیا گیا تو آئندہ بھی کسی لڑکے ہی کو دیا جائے گا(تا کہ مستقبل میں خلطِ نسب کی وجہ سے رشتوں میں خرابی نہ آئے)، اگر مان لیا جائے کہ اس شرط کی رعایت ممکن ہو سکے گی، پھر بھی غیر یقینی اور غیر متحقق امر کے لیے شرع کے اصول سے ہٹ کر ایک چیز کا انتظام کرنا لازم آتا ہے اور ایسا کرنا درست نہیں۔ 

حاصل یہ کہ ہیومن ملک بینک قائم کرنا جائز نہیں، ضرورت مند بچوں کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وہی طریقہ اختیار کیا جائے جواسلام کے ابتدائی زمانہ سے اختیار کیا جا رہا ہے، یعنی: کسی خاتون کا انتظام۔

(1) فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"امرأة ترضع صبيا بغير إذن زوجها يكره لها ذلك إلا إذا خافت ‌هلاك ‌الرضيع فحينئذ لا بأس به كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الكراهية ، الباب الثلاثون ، جلد : 5 ، صفحه : 372 ، طبع : دار الفكر)

(2)مبسوط سرخسی میں ہے:

"ولا نسلم أن اللبن غذاء على الإطلاق وإنما هو غذاء في تربية الصبيان لأجل الضرورة فهم لا يتربون إلا بلبن الجنس عادة كالميتة تكون غذاء عند الضرورة."

(كتاب الاجارات ، باب اجارة الظئر ، جلد : 15 ، صفحه : 126 ، طبع : دار المعرفة)

العناية شرح الهداية میں ہے:

"والثاني مسلم لأنه غذاء في تربية الصغار لأجل الضرورة فإنهم لا يتربون إلا بلبن الجنس عادة."

(كتاب البيوع ، باب البيع الفاسد ، جلد : 6 ، صفحه : 423 ، طبع : دار الفكر)

(3) الأشباه والنظائر لابن نجيم میں ہے: 

"الثانية: ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها ولذا قال في أيمان الظهيرية: إن اليمين الكاذبة لا تباح للضرورة وإنما يباح التعريض، (انتهى) .

يعني؛ لاندفاعها بالتعريض،

ومن فروعه: المضطر لا يأكل من الميتة إلا قدر سد الرمق."

(الفن الاول ، صفحه : 73 ، طبع : دار الكتب العلمية)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے: 

"(المادة 22) : ‌ما ‌أبيح ‌للضرورة يتقدر بقدرها.

أي أن الشيء الذي يجوز بناء على الضرورة يجوز إجراؤه بالقدر الكافي لإزالة تلك الضرورة فقط، ولا يجوز استباحته أكثر مما تزول به الضرورة. مثلا: لو أن شخصا كان في حالة الهلاك من الجوع يحق له اغتصاب ما يدفع جوعه من مال الغير لا أن يغتصب كل شيء وجده مع ذلك الغير، كذلك جوز البيع بخيار التعيين في شيئين أو ثلاثة لا أزيد كأربعة أشياء أو خمسة، إذ لا ضرورة تدعو للزيادة؛ لأن ‌ما ‌أبيح ‌للضرورة إنما يتقدر بقدرها."

(المقالة الثانية ، المادة 22 ، جلد : 1 ، صفحه : 38 ، طبع : دار الجيل)

(4) فتاوی شامی میں ہے:

"اختلف في التداوي بالمحرم، وظاهر المذهب المنع كما في رضاع البحر، لكن نقل المصنف ثمة وهنا عن الحاوي: وقيل: يرخص إذا علم فيه الشفاء ولم يعلم دواء آخر كما رخص الخمر للعطشان، وعليه الفتوى.

مطلب في التداوي بالمحرم (قوله اختلف في التداوي بالمحرم) ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. وفي الخانية في معنى قوله عليه الصلاة والسلام «إن الله لم يجعل شفاءكم فيما حرم عليكم» كما رواه البخاري أن ما فيه شفاء لا بأس به كما يحل الخمر للعطشان في الضرورة، وكذا اختاره صاحب الهداية في التجنيس فقال: لو رعف فكتب الفاتحة بالدم على جبهته وأنفه جاز للاستشفاء، وبالبول أيضا إن علم فيه شفاء لا بأس به، لكن لم ينقل وهذا؛ لأن الحرمة ساقطة عند الاستشفاء كحل الخمر والميتة للعطشان والجائع. اهـ من البحر. وأفاد سيدي عبد الغني أنه لا يظهر الاختلاف في كلامهم لاتفاقهم على الجواز للضرورة، واشتراط صاحب النهاية العلم لا ينافيه اشتراط من بعده الشفاء ولذا قال والدي في شرح الدرر: إن قوله لا للتداوي محمول على المظنون وإلا فجوازه باليقيني اتفاق كما صرح به في المصفى. اهـ.

أقول: وهو ظاهر موافق لما مر في الاستدلال، لقول الإمام: لكن قد علمت أن قول الأطباء لا يحصل به العلم. والظاهر أن التجربة يحصل بها غلبة الظن دون اليقين إلا أن يريدوا بالعلم غلبة الظن وهو شائع في كلامهم تأمل."

(کتاب الطھارۃ ، باب المیاه ، جلد : 1 ، صفحه : 210 ، طبع :سعید)

(5) احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"‌‌باب في مقدار ما يأكل المضطر

قال أبو حنيفة وأبو يوسف ومحمد وزفر والشافعي فيما رواه عنه المزني: لا يأكل المضطر من الميتة إلا مقدار ما يمسك به رمقه."

(من سورة البقرة ، ‌‌باب في مقدار ما يأكل المضطر ، جلد : 1 ، صفحه : 158 ، طبع : دار الكتب العلمية)

(6) فتاوی شامی میں ہے:

"ولم يبح الإرضاع بعد مدته) لأنه ‌جزء ‌آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية."

(كتاب النكاح ، باب الرضاع ، جلد : 3 ، صفحه : 211 ، طبع : سعيد)

(7)صحیح البخاری میں ہے:

"عن عقبة بن الحارث، قال: تزوجت امرأة، فجاءت امرأة فقالت: إني قد أرضعتكما، فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «وكيف ‌وقد ‌قيل، ‌دعها عنك» أو نحوه."

(کتاب الشهادات ، باب المرضعة ، جلد : 3 ، صفحه : 173 ، طبع : السلطانية)

(8)البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"وفي الولوالجية: والواجب على النساء أن لايرضعن كل صبي من غير ضرورة، فإذا فعلن فليحفظن أو ليكتبن اهـ."

(كتاب الرضاع ، جلد : 3 ، صفحه : 238 ، طبع : دار الكتاب الاسلامي)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"والواجب على النساء أن لا يرضعن كل صبي من غير ضرورة وإن فعلن ذلك فليحفظن أو يكتبن، كذا سمعت من مشايخي رحمهم الله تعالى كذا في المضمرات."

(کتاب الرضاع ، جلد : 1 ، صفحه : 345 ، طبع : دار الفکر)

(9) بدائع الصنائع میں ہے:

"والأصل في ذلك أن كل اثنين اجتمعا على ثدي واحد صارا أخوين أو أختين أو أخا وأختا من الرضاعة فلا يجوز لأحدهما أن يتزوج بالآخر ولا بولده كما في النسب ... والأصل في هذه الجملة قول النبي - صلى الله عليه وسلم - «يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب» فيجب العمل بعمومه إلا ما خص بدليل."

(كتاب الرضاع، فصل في المحرمات بالرضاع ، جلد : 4 ، صفحه : 2 ، طبع : دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"يحرم من الرضاع أصوله وفروعه وفروع أبويه وفروعهم، وكذا فروع أجداده وجداته الصلبيون، وفروع زوجته وأصولها وفروع زوجها وأصوله وحلائل أصوله وفروعه".

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، جلد : 3 ، صفحه : 31 ، طبع : سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144604100427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں