بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ہنڈی کے ذریعے رقم منتقل کرنے کا حکم


سوال

جو باہر ملکوں سے پردیسی لوگ پاکستان اپنی رقم بھیجتے  ہیں هنڈی کے ریٹ کے حساب سے، اس طرح رقم بھیجنا صحیح ہے ؟ يا  کچھ قباحت ہے اس میں ؟ کیونکہ مجھے کسی نے بتایا ہے اس طرح پیسے بھیجنا صحیح نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ہمارے ملک کو فائدہ نہیں ہوتا اس میں کچھ گناہ کی بات ہے كيا ؟

جواب

ہنڈی کا کاروبار  ملکی و بین الاقوامی قوانین کے مطابق سے ممنوع ہے؛  پکڑے جانے کی صورت میں  جان و مال کے  نقصان کا خطرہ ہوتا ہے، مباح امور میں اسلام چوں کہ ملکی قوانین   کی پاسداری کا حکم دیتا ہے،  لہذا رقم کی ترسیل کے لیے  قانونی  راستہ  اختیار کرنا چاہیے،  تاہم  اگر باہر ممالک سے بینک کے ذریعے بھیجنا آسانی سے ممکن نہیں ہو  اور کوئی شخص ہنڈی  کے ذریعے  رقم بھیجے تو وہ اس تفصیل کے ساتھ جائز ہے کہ  ہنڈی کے ذریعے رقم  بھیجتے وقت باہر ملک یا پاکستان کے ریٹ کے مطابق رقم متعین کی جائے، مثلًا ایک آدمی سعوی عرب سے پاکستان ریال بھیجنا چاہے اور پاکستان میں اس کے بدلے میں پاکستانی کرنسی لینا چاہے تو ریال  کی قیمت پاکستانی رقم کے حساب سے پاکستان یا سعودیہ میں جو رائج ہے  ان میں سے کسی ایک ریٹ کو متعین کیا جائے تو صحیح ہے، اور اگر رائج قیمت سے زیادہ یا کم متعین کی جائے گی تو پھر جائز نہیں ہوگا۔ نیز  جتنی رقم دی جائے اتنی ہی رقم آگے پہنچانا ضروری ہوگا، اس میں کمی بیشی جائز نہیں ہوگی، البتہ بطورِ فیس/ اجرت الگ سے طے شدہ اضافی رقم لی جاسکتی ہے۔

"تنقیح الفتاوی الحامدیة"میں ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها".

(کتاب البیوع، باب القرض، ج؛۱ ؍ ۵۰۰ ، ط:قدیمی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام".

(کتاب البیوع، فصل فی القرض، ج:۵ ؍ ۱۶۶ ، ط:سعید )

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"وَفِي شَرْحِ الْجَوَاهِرِ: تَجِبُ إطَاعَتُهُ فِيمَا أَبَاحَهُ الشَّرْعُ، وَهُوَ مَا يَعُودُ نَفْعُهُ عَلَى الْعَامَّةِ، وَقَدْ نَصُّوا فِي الْجِهَادِ عَلَى امْتِثَالِ أَمْرِهِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ."

( كتاب الأشربة، ٦ / ٤٦٠، ط: دار الفكر)

احكام القرآن( لظفر احمد عثمانی) میں ہے:

"و هذا الحكم أي وجوب طاعة الأمير يختص بما إذا لم يخالف أمره الشرع، يدل عليه سياق الآية فإن الله تعالي أمر الناس بطاعة أولي الأمر بعد ما أمرهم بالعدل، في الحكم تنبيها علي أن طاعتهم واجبة ماداموا علي العمل."

(طاعة الأمير فيما لايخالف الشرع، النساء: ٥٩، ٢ / ٢٩١ - ٢٩٢، ط: إدارة القرآن)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101380

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں