بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

ہنڈی سے پیسہ بھیجنے کا حکم


سوال

حوالہ یعنی ہنڈی سے پیسہ بھیجنا، جب کہ اس پر مزید رقم دینی پڑتی ہو، جائز ہے یا نہیں؟ نیز اگر زائد رقم اصل رقم کے علاوہ ادا کی جائے تو کیا حکم ہوگا؟ کیا یہ رقم کا ادھار معاملہ کرنا ہے؟

جواب

1، 2۔  ہنڈی کا کاروبار  ملکی و بین الاقوامی قوانین کی رو سے ممنوع ہے؛  پکڑے جانے کی صورت میں  جان و مال کے  نقصان کا خطرہ ہوتا ہے، مباح امور میں اسلام چوں کہ ملکی قوانین کی پاسداری کا حکم دیتا ہے،  لہذا رقم کی ترسیل کے لیے  قانونی راستہ  اختیار کرنا چاہیے، البتہ ہنڈی سے رقم کی ترسیل درج ذیل تفصیل کے مطابق اگر ہو تو اسے حرام قرار نہیں دیا جائے گا:

1-  مروجہ ہنڈی (حوالہ) کی حیثیت قرض کی ہے؛ اس لیے جتنی رقم دی جائے اتنی ہی رقم آگے پہنچانا ضروری ہوگا، اس میں کمی بیشی جائز نہیں ہوگی، البتہ بطورِ فیس/ اجرت الگ سے طے شدہ اضافی رقم لی جاسکتی ہے۔

2- کرنسیوں کے مختلف ہونے کی صورت میں  لازم ہوگا کہ  جس ملک میں قرض کی ادائیگی کرنی ہے،  ادائیگی کے وقت  قرض لی ہوئی کرنسی   ہی  ادا کردے یا  جو کرنسی قرض  دی گئی تھی ادائیگی یا وصولیابی کے دن  اس کرنسی کے  جو ریٹ چل رہے ہوں ان میں سے  کسی ایک ریٹ کو متعین کر کے اس کے مطابق، قرض دی گئی کرنسی کے مساوی کرنسی ادا کردی جائے۔

 مارکیٹ ریٹ سے کم یا زیادہ  طے کر کے لین دین کرنا جائز نہیں ہے۔ اجرت جدا گانہ طے کی جائے۔

3- "ہنڈی"  کی حیثیت قرض کی ہے، "بیعِ صرف"  (کرنسی کی خرید و فروخت) کی نہیں؛ لہٰذا ہنڈی کے معاملے میں مجلسِ عقد میں جانبین سے قبضہ شرط نہیں ہے،  "بیعِ صرف" میں دونوں جانب سے مجلسِ عقد میں قبضہ ضروری ہوتا ہے، نہ کہ قرض میں۔

"تنقیح الفتاوی الحامدیة" میں ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها". (کتاب البیوع، باب القرض،١ / ٥٠٠، ط: قديمي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام".( کتاب البیوع، فصل فی القرض،  ٥ / ١٦٦، ط: سعید ) 

رد المحتار على الدر المختار میں ہے:

"وَفِي شَرْحِ الْجَوَاهِرِ: تَجِبُ إطَاعَتُهُ فِيمَا أَبَاحَهُ الشَّرْعُ، وَهُوَ مَا يَعُودُ نَفْعُهُ عَلَى الْعَامَّةِ، وَقَدْ نَصُّوا فِي الْجِهَادِ عَلَى امْتِثَالِ أَمْرِهِ فِي غَيْرِ مَعْصِيَةٍ."

( كتاب الأشربة، ٦ / ٤٦٠، ط: دار الفكر)

احكام القرآن لظفر احمد عثماني میں ہے:

"و هذا الحكم أي وجوب طاعة الأمير يختص بما إذا لم يخالف أمره الشرع، يدل عليه سياق الآية فإن الله تعالي أمر الناس بطاعة أولي الأمر بعد ما أمرهم بالعدل، في الحكم تنبيها علي أن طاعتهم واجبة ماداموا علي العمل."

(طاعة الأمير فيما لايخالف الشرع، النساء: ٥٩، ٢ / ٢٩١ - ٢٩٢، ط: إدارة القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قَوْلُهُ: يُعَزَّرُ)؛ لِأَنَّ طَاعَةَ أَمْرِ السُّلْطَانِ بِمُبَاحٍ وَاجِبَةٌ."

( كتاب البيوع، باب المراحبة و التولية، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ٥ / ١٦٧، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200358

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں