1۔ اگر داماد ساس کو شہوت کی نظر سے دیکھے یا چھوئے تو کیا اس سے بیوی اس پر ہمیشہ کےلیے حرام ہوجاتی ہے؟ اسی طرح اگر سسر اپنی بہو کو شہوت کی نظر سے دیکھے یا چھوئے تو شرعًا اس کا کیا حکم ہے؟
2۔ اگر باپ پیار و شفقت سے اپنی بالغ بیٹی کا (جو کہ اس کے پاس لیٹی ہو) بوسہ لے اور اسے پیار سے چومے تو کیا اس سے بیوی اس پر ہمیشہ کےلیے حرام ہوجاتی ہے؟
اس بارے میں تفصیلی راہ نمائی فرمائیں۔
(1) واضح رہے کہ مرد کے کسی عورت کو محض شہوت سے دیکھنے یا چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، بلکہ اس کے ثبوت کے لیے شرعًا چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے:
1۔ جس عورت کو شہوت کے ساتھ دیکھے یا چھوئے وہ قابلِ شہوت ہو، یعنی کم از کم وہ نو سال کی ہو۔
2۔ دیکھتے یا چھوتے وقت ہی شہوت پیدا ہوئی ہو، بعد میں شہوت کا پیدا ہونا معتبر نہیں ہے۔ نیز اگر اس وقت شہوت نہ ہو، بلکہ صرف دلی ہیجان والی کیفیت پیدا ہو، تب بھی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
3۔ چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ اس کے عضوِ خاص میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر اس میں پہلے سے انتشار ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے۔ اور بیمار اور بوڑھے مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا، اسی طرح عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ دل میں ہمبستری کی خواہش و ہیجان کی کیفیت پیدا ہو، اور اگر دل میں خواہش و ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں مزید اضافہ ہوجائے۔
4۔ شہوت کے ساتھ چھونا اس طور پر ہو کہ درمیان میں کوئی چیز مثلاً: کپڑا وغیرہ حائل نہ ہو، اگر درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ حائل ہو تو اگر وہ اس قدر باریک ہو جو جسم کی حرارت پہنچنے سے مانع نہ ہو، بلکہ اس کے ہوتے ہوئے بھی جسم کی حرارت محسوس ہوتی ہو تو حرمت ثابت ہوجاتی ہے، لیکن اگر کپڑا اس قدر موٹا ہو کہ اس کی وجہ سے بدن کی گرمی محسوس نہ ہو تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔ اور اگر عورت کے جسم کے کسی ایسے حصّے کو بلا حائل چھوئے جہاں چھونے میں شہوت غالب ہو تو اس سے بھی حرمت ثابت ہوجائے گی۔
5۔ شہوت سے دیکھنے کی صورت میں عورت کے فرجِ داخل (شرم گاہ کے اندرونی حصّے) کا دیکھنا، اس کے علاوہ بدن کے کسی اور حصّے کو شہوت کے ساتھ دیکھنے سے حرمت ثابت نہیں ہوگی۔ اسی طرح مرد کے عضوِ مخصوص کا دیکھنا حرمت کے ثبوت کےلیے ضروری ہے۔
6۔ شہوت سے دیکھنے یا چھونے کی صورت میں اس وقت انزال نہ ہوا ہو، اگر اسی وقت انزال ہو گیا تو حرمت ثابت نہ ہو گی۔
لہٰذا اگر کوئی مرد اپنی ساس یا بہو کو شہوت سے دیکھے یا چھوئے تو اس وقت حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگی جب اس میں مذکورہ بالا شرائط پائی جائیں، چنانچہ اگر یہ شرائط نہ پائی جائیں تو حرمت ثابت نہیں ہوگی، یعنی بیوی اپنے شوہر پر ہمیشہ کےلیے حرام نہیں ہوگی، تاہم کسی غیر عورت کو شہوت سے دیکھنا یا چھونا انتہائی قبیح اور باعثِ گناہ عمل ہے۔
(2) اگر باپ پیار و شفقت کی بنا پر اپنی بالغ بیٹی کو بوسہ دے اور اسے پیار سے چومے تو اس سے بیوی اس پر ہمیشہ کےلیے حرام نہیں ہوگی،البتہ اگر بوسہ دیتے یا چومتے وقت شہوت پیدا ہوجائے یا بوسہ دینا اور چومنا شہوت کے ساتھ ہو، اور اگر پہلے شہوت تھی تو وہ بڑھ گئی ہو تو اس سے بیوی اس پر ہمیشہ کےلیے حرام ہوجائے گی، نیز اگر بوسہ دیتے یا چومتے وقت شہوت کا غالبِ گمان ہو تو اپنی بالغ بیٹی کو چومنا یا بوسہ دینا جائز نہیں ہوگا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقا والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي.
وفي الرد: (قوله: وفي الجوهرة إلخ) كذا في النهر وعلى هذا ينبغي أن يكون مس الفرج كذلك بل أولى؛ لأن تأثير المس فوق تأثير النظر بدليل إيجابه حرمة المصاهرة في غير الفرج إذا كان بشهوة بخلاف النظر ح. قلت: ويمكن أن يكون ما في الجوهرة مفرعا على القول الآخر في حد الشهوة فلا يكون للنظر احترازا عن مس الفرج ولا عن مس غيره تأمل. (قوله: فلا حرمة) لأنه بالإنزال تبين أنه غير مفض إلى الوطء هداية. قال في العناية: ومعنى قولهم إنه لا يوجب الحرمة بالإنزال أن الحرمة عند ابتداء المس بشهوة كان حكمها موقوفا إلى أن يتبين بالإنزال، فإن أنزل لم تثبت، وإلا ثبت لا أنها تثبت بالمس ثم بالإنزال تسقط؛ لأن حرمة المصاهرة إذا ثبتت لا تسقط أبدا."
(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:33، ط:ایج ایم سعید)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة وإن انتشرت آلته بذلك وإن كان رقيقا بحيث تصل حرارة الممسوس إلى يده تثبت، كذا في الذخيرة.......
ووجود الشهوة من أحدهما يكفي وشرطه أن لا ينزل حتى لو أنزل عند المس أو النظر لم تثبت به حرمة المصاهرة، كذا في التبيين. قال الصدر الشهيد وعليه الفتوى، كذا في الشمني شرح النقاية. ولو مس فأنزل لم تثبت به حرمة المصاهرة في الصحيح؛ لأنه تبين بالإنزال أنه غير داع إلى الوطء، كذا في الكافي."
(كتاب النكاح، الباب الثالث، القسم الثاني المحرمات بالصهرية، ج:1، ص:275، ط:المكتبة الرشيديه كوئته)
مجمع الانہر میں ہے:
"(ولو أنزل مع المس) ، أو النظر (لا تثبت الحرمة) ؛ لأنه تبين بإنزاله أنه غير داع إلى الوطء الذي هو سبب الجزئية و (هو الصحيح) احترازا عما قيل تثبت؛ لأن بمجرد المس بشهوة تثبت الحرمة والإنزال لا يوجب رفعها بعد الثبوت والمختار أن لا تثبت بناء على أن الأمر موقوف حال المس إلى ظهور عاقبته إن ظهر أنه لم ينزل حرمت وإلا فلا كما في الفتح."
(كتاب النكاح، باب المحرمات، ج:1، ص:327، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)
البحرالرائق میں ہے:
"وقيد بكون اللمس عن شهوة؛ لأنه لو كان عن غير شهوة لم يوجب الحرمة والمراهق كالبالغ ووجود الشهوة من أحدهما كاف، فإن ادعتها وأنكرها فهو مصدق إلا أن يقوم إليها منتشرا فيعانقها؛ لأنه دليل الشهوة كما في الخانية وزاد في الخلاصة في عدم تصديقه أن يأخذ ثديها أو يركب معها."
(كتاب النكاح، فصل في المحرمات في النكاح، ج:3، ص:107، ط:دار الكتاب الإسلامي القاهرة)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"[فائدة] قيل التقبيل على خمسة أوجه: قبلة المودة للولد على الخد، وقبلة الرحمة لوالديه على الرأس، وقبلة الشفقة لأخيه على الجبهة وقبلة الشهوة لامرأته وأمته على الفم وقبلة التحية للمؤمنين على اليد وزاد بعضهم، قبلة الديانة للحجر الأسود جوهرة."
(كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغيره، ج:6، ص:384، ط:ايج ايم سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وكل ما جاز النظر إليه منهن من غير حائل جاز مسه لأن المحرم يحتاج إلى إركابها وإنزالها في المسافرة معها وتتعذر صيانة هذه المواضع عن الانكشاف فيتعذر على المحرم الصيانة عن مس المكشوف ولأن حرمة النظر إلى هذه المواضع ومسها من الأجنبيات إنما ثبت خوفا عن حصول الشهوة الداعية إلى الجماع والنظر إلى هذه الأعضاء ومسها في ذوات المحارم لا يورث الشهوة لأنهما لا يكونان للشهوة عادة بل للشفقة ولهذا جرت العادة فيما بين الناس بتقبيل أمهاتهم وبناتهم.
وقد روي «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قدم من الغزو قبل رأس السيدة فاطمة رضي الله عنها» وهذا إذا لم يكن النظر والمس عن شهوة ولا غلب على ظنه أنه لا يشتهي فأما إذا كان يشتهي أو كان غالب ظنه وأكبر رأيه أنه لو نظر أو مس اشتهى لم يجز له النظر والمس لأنه يكون سببا للوقوع في الحرام فيكون حراما."
(كتاب الاستحسان، ج: 5، ص: 120، ط: ایج ایم سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603102755
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن