بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

حرمتِ مصاہرت سے متعلق چند مسائل


سوال

1:اگر کوئی سسر اپنی بہو کے ساتھ نازیبا حرکات کرتا ہے اور بہو اپنے آپ کو بچاتی رہے، بعد میں سسر اور اس کا بیٹا(شوہر) دونوں اس حرکت کا انکار کریں، کیا اس سے میاں بیوی کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے یا برقرار رہتا ہے؟

2:اگر نکاح ٹوٹ گیا ہے تو کیا وہ دوسرا نکاح کر سکتی ہے؟

3:اگر نکاح نہیں ٹوٹا تو کیا عورت عدالت سے خلع لے سکتی ہے، کیوں کہ شوہر طلاق دینے سے انکار کر رہا ہے، کیا اس مسئلہ میں شوہر کا زبان سے طلاق دینا یا چھوڑنے کے الفاظ کہناضروری ہے؟

4:اگر عورت کو یہ یقین ہو کہ اس کا سسر یہ کام کرتا ہے، سسر اور اس کا بیٹا اس کا انکار کرے تو عورت کے لئے کیا حکم ہے؟

جواب

1:اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے اصول وفروع میں سے کسی کہ ساتھ جماع یا دواعی جماع کرلے، یا شوہر کے اصول وفروع میں سے کوئی مرد اس کی بیوی کے ساتھ جماع یا داوعی جماع کرلے، تو  ایسی صورت میں ان دونوں مرد وعورت جنہوں نے یہ فعل  (جماع یا دواعی جماع) کیا ہے، کے درمیان حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی، اور دونوں کے اصول وفروع ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوجائیں گے، تاہم جس عورت کے ساتھ یہ فعل ہوا ہے اس کے شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ شوہر کو اس واقعے کی سچائی کا غالب گمان ہو اور وہ اس کی تصدیق کرے، یا پھر اس واقعے کے وقوع  کی شرعی گواہان گواہی دے دیں، لہٰذا اگر شوہر کو اس واقعے کا علم نہ  ہو، یا وہ  علم ہونے کے بعد اس کی تصدیق نہ کرے اور اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے شرعی گواہان بھی نہ ہوں، تو صرف شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہوگی، یعنی شوہر اگر اس واقعے کے بعد بھی اپنی بیوی کو علیٰحدہ نہ کرے، تو  وہ گناہ گار نہیں ہوگا اور  شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے شوہر کی تصدیق یا شرعی شہادت،  اس وجہ سے ضروری ہے کہ اس طرح کے دعوے میں شوہر کی حق تلفی ہے، لہٰذا شریعت نے اس کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے یہ شرط عائد کی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں چونکہ سسر اور شوہر عورت کی بات کا انکار کر رہے ہیں، لہذا شوہر کے حق میں حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، میاں بیوی کا نکاح برقرار رہے گا۔

2:میاں بیوی کا نکاح محض حرمتِ مصاہرت کے  ثابت ہوجانے سے نہیں ٹوٹتا، بلکہ شوہر کا بیوی کو طلاق دینا یا قاضی کا دونوں میں تفریق کرانا ضروری ہے۔

3:اگر بیوی کے پاس اس معاملہ پر کوئی شرعی گواہ موجود ہو تو بیوی عدالت میں اس بات کو ثابت کرکے عدالت سے تنسیخِ نکاح کروا سکتی ہے، البتہ اگر عورت کے پاس کوئی شرعی گواہ موجود نہ ہو اور شوہر طلاق یا خلع دینے پر بھی راضی نہ ہو تو پھر عورت عدالت کے ذریعہ  اپنا نکاح ختم نہیں کراسکتی ہے۔

4:نیزحرمتِ مصاہرت اس وقت ثابت ہوگی جب شوہر بیوی کی بات کی تصدیق کرےگا، اگر شوہر بیوی کی بات کی تصدیق نہیں کرے گاتو پھر حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، اور اس صورت میں بیوی کا شوہر کےساتھ رہنا جائز ہوگا، البتہ  اگر عورت شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی توبیوی شوہر سے طلاق یا خلع لے لے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وثبوت ‌الحرمة ‌بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. "

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:32، ط:دار الفکر)

وفیه أیضًا:

"وعلمت أن المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج:3، ص:305، ط:دار الفکر)

وفیه أیضًا:

"وبحرمة المصاهرة لا يرتفع النكاح حتى لا يحل لها التزوج بآخر إلا بعد المتاركة وانقضاء العدة."

(کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:37، ط:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602101336

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں