حروف ابجد کی کیا حقیقت ہے؟ کیا اس کے ذریعہ مستقبل کا یا کسی کے اچھے برے ہونے کا پتا لگایا جا سکتا ہے؟ اور کیا یہ علم حدیث سے ثابت ہے؟
حروفِ ابجد کی ایجاد حروفِ تہجی کو یادکرنے کی غرض سے قدیم زمانے میں کی گئی، البتہ اس کا استعمال مختلف رہا ہے، شعراء اور کاتبین، تعویذ لکھنے والے اور دیگر اچھے اور برے کاموں میں اس کو استعمال کرتے ہیں۔
شرعًا اس کا کوئی تعلق مستقبل کی خبروں سے نہیں، بلکہ مستقبل کی خبروں کو معلوم کرلینے کا دعوی کرنا ہی اسلامی عقائد کے خلاف ہے۔ غیب کا علم صرف اللہ تعالی ہی کو ہے، جو غیب دانی کا دعویٰ کرے یا مستقبل کی پیشین گوئی کرکے اسے قطعی کہے، ایسے شخص کے پاس جانا اور اس کی تصدیق کرنا حرام ہے۔
نیز ان حروف کے استعمال کا حکم یہ ہے کہ جائز کاموں کے لیے اس کا استعمال جائز اور ناجائز مقاصد کے لیے ناجائز ہے۔
{قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِى السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضِ الْغَیْبَ اِلاَّ اﷲُ } [النمل: 27 : 65]
’’فرمادیجیے کہ جو کوئی بھی آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ غیب کا علم نہیں رکھتے، سوائے اللہ تعالی کے۔‘‘
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203200955
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن