بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی کا ایک سال تک قطع تعلق کی صورت میں تجدید نکاح کا حکم


سوال

تجدید نکاح کی کن کن مواقع پر لازمی ضرورت ہوتی ہے ؟کیا کوئی میاں بیوی سال سے زائد عرصہ ایک دوسرے سے ناراض ہوں، مباشرت و بول چال بھی بند ہو اور علیحدہ کمروں میں سوتے ہوں، ضرورت کی بات بچوں کے ذریعے ایک دوسرے تک پہنچاتے ہوں تو اب ان کی صلح کی صورت میں تجدید نکاح ضروری ہے یا بغیر اس کے بھی مباشرت کر سکتے ہیں؟

جواب

تجدیدِ نکاح کا مطلب ہے از سر نو نکاح کرنا، یا نکاح کو نیا کرنا، درج ذیل چند صورتوں میں تجدید نکاح کرنا لازم ہے: 

  1. کوئی شخص اپنی بیوی کو  ایک یا دو طلاق رجعی دے دے، اور اس کی عدت گزرجائے۔ 
  2. شوہر ،اپنی بیوی کو  ایک یا دو طلاق بائن دے دے۔
  3. عورت شوہر سے اس کی رضامندی سے خلع لے لے۔ 
  4. قاضی شرعی  کسی شرعی بنیاد پر میاں بیوی کا نکاح فسخ کردے،  اور بعد میں وہ وجہ ختم ہوگئی اور اب دوبارہ نکاح کی گنجائش ہو۔
  5. شوہر یا بیوی (معاذ اللہ ) مرتد ہوگئے اور پھر دوبارہ اسلام قبول کرلیا۔ 

ان صورتوں میں اگر میاں بیوی دوبارہ باہمی رضامندی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں، تو انہیں گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ دوبارہ عقد کرنا پڑے گا۔

اور اگر مذکورہ بالا صورتوں میں سے کوئی صورت پیش نہیں آئی،بلکہ صرف میاں بیوی میں ناراضی کی وجہ سے بول چال بند تھی اور ایک سال تک دونوں نے آپس میں کوئی تعلق قائم نہیں کیا تو صرف اس کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا، بلکہ نکاح قائم ہے اور  تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے اور وہ دونوں صلح کرنے کے بعد بغیر تجدید نکاح کے ہم بستری بھی کر سکتے ہیں۔

البتہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرنا جائز نہیں ہے، لہذا آئندہ بول چال بند کرنے سے اور قطع تعلقی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

صلہ رحمی کے فضائل اور قطع رحمی پر وعیدیں


فتوی نمبر : 144212202201

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں