بارہ ربیع الاول کے دن حضور ﷺ کی آمد کی خوشی میں پڑوسیوں نے مٹھائی بھیجی، کیا یہ کھانا جائز ہے؟
ربیع الاول میں ثواب اور عبادت سمجھ کر جشن منانا، چراغاں کرنا، کھانے اور مٹھائی تقسیم کرنا قرآن و سنت، صحابہ تابعین اور تبع تابعین سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ بدعت ہے، ان ایامِ مخصوصہ میں ثواب اور عبادت سمجھ کر خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء بنانااور تقسیم کرنا بدعت ہے، لہٰذا ان چیزوں کے کھانے، پینے سے اجتناب کرناچاہیے اگرچہ وہ کھانا حرام نہیں ہوگا۔
حدیث شریف میں ہے:
"عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد."
(كتاب الصلح، باب: إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود، ج:٣، ص:١٨٤، ط:دارطوق النجاة)
ترجمہ:”حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ جس نے ہماری دین میں ایسی بات ایجاد کی جس کا تعلق ہمارے حکم سے نہیں ہے تو وہ رد کردینے کے قابل ہے۔“
کفایت المفتی میں ہے:
”سوال:یوم میلاد النبی منانا، بموجب پروگرام سیرت کمیٹی کے، جلوس شہر میں نکالنا، میلاد پڑھتے ہوئے راستے سے چلنا، ایک جگہ جمع ہوکر جلسہ کرکے سیرت نبوی و اسلام اور بانی اسلام کا تذکرہ کرنا اور بعدہ شیرینی عوام میں تقسیم کرنا، شرع میں ہر ایک عمل کے لیے کیا حکم ہے؟ کیا مذکورہ بالا عمل شرک و بدعت ہے؟
جواب:سوال میں جتنی باتیں مذکور ہیں، ان میں سے صرف نمبر چار بلا تخصیصِ تاریخ و یوم جائز ہے، باقی افعال کا ترک لازم ہے، مذکورہ بالا اعمال شرک تو نہیں، مگر ان کو لازم سمجھنا اور جلوس وغیرہ کو شرعی امور قرار دینا بدعت ہے۔“
(کتاب العقائد، عنوان:عیدمیلادالنبی کے دن جلسہ، جلوس اور شیرینی تقسیم کرنا، ج:1، ص:149، ط:دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102373
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن