ہمارے ہاں مدرسہ کی طرف سے بعض طلبہ کو یہ ذمہ دار ی سونپی جاتی ہے کہ وہ دیگر طلباء کو نمازوں کےاوقات میں مدرسہ سے مسجد بھیجیں،لیکن اس میں یہ مسئلہ پیش آتاہے کہ ذمہ دار طلباء عصر اور عشاء کی اذان کے بعد مسجد سے نکل کراپنی ذمہ داری انجام دینے کےلیے مدرسہ آجاتے ہیں اور پھر وہیں پرمدرسہ میں پہلے اپنی نماز باجماعت ادا کرتے ہیں،اس کے بعد باقی طلباء کو مسجد کی طرف بھیجتے ہیں،تو کیا ان ذمہ دار طلباء کااذان کے بعد مسجدسے نکلنا مکروہ ہےیا نہیں ؟جب کہ حدیث ”لایخرج من المسجد بعد النداء الا المنافق“مطلق ہےاور کیا مذکورہ عذر کی وجہ سے نکلنا مکروہ تحریمی ہوگا یا تنزیہی ؟اور حدیث میں” بعد النداء“سے مراد دخول ِوقت ہے یااذان ؟،نیزکراہت سے نکلنے کی کوئی صور ت ہے؟
وضاحت: بعض طلباء نمازوں کے اوقات مدرسہ میں ہوتے ہیں اور مدرسہ کی طرف سے طلباء کو مختلف قسم کی ذمہ داری دی جاتی ہیں تو ان طلباء کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہےکہ تم نے نمازوں کے اوقات میں مدرسہ میں موجود طلباء کو مسجد میں بھیجنا ہے،ذمہ دار طلباء مسجد میں تکرار کرتے ہیں تو عصر اور عشاءکی اذان کےبعدیہ ذمہ دار طلباء مسجدسے نکل کرمدرسہ میں پہلے اپنی نماز باجماعت پڑھتے ہیں ،پھر اس کے بعد مدرسہ میں موجود طلباء کو مسجدبھیجتے ہیں یہی ان کی ذمہ داری ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مسجد اور مدرسہ میں اتنا فاصلہ نہیں ہے،بلکہ مسجدکے ساتھ بالکل سامنے دار الاقامۃ ہے۔
جو شخص کسی مسجد کے اندر موجود ہو اور اس میں اذان ہوجائے تو اذان کے بعد مسجد سے بغیرکسی مجبوری کے نکلنا مکروہِ تحریمی ہے،اور ایسے شخص کے بارے میں وعیدآئی ہے، البتہ کسی شرعی یا فطری مجبوری کی وجہ سے نکلنا مکروہ نہیں، اس کی صورتیں درج ذیل ہیں:
1۔قضاءِ حاجت کے لیے نکلنا، یا وضو کرنے کے لیے جانا۔
2۔ مسجد سے نکلنے والا شخص کسی دوسری مسجدکا امام یامؤذن یا متولی ہو ۔
3۔دوسری مسجد کا امام یا مؤذن یا متولی تو نہ ہو، لیکن اپنے محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جارہا ہو اور وہاں اب تک نماز بھی نہ ہوئی ہو۔ اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ اگر ضروری کام نہ ہو تو اُسی مسجد میں نماز ادا کرے جہاں اذان کے وقت موجود تھا۔
4۔ اپنے استاذ کی مسجد میں نماز ادا کرنے اورشریکِ درس ہونے یا وعظ سننے کے لیے جارہاہو۔
5۔ اپنی کسی ضرورت ( شدید بھوک وغیرہ کی وجہ سے کھانا کھانے) کی غرض سے نکلے، اورجماعت کے لیے واپس آنے کا ارادہ بھی ہو۔
6۔ وقتی فرض نماز ادا کرچکا ہو اور ابھی اقامت شروع نہ ہوئی ہو، البتہ فجر، عصر یا مغرب کی نماز ادا کرلی ہو تو اقامت کے دوران یا نماز شروع ہونے کے بعد بھی مسجد سے نکلنا مکروہ نہیں۔
لہذا صورت ِمسئولہ میں مذکورہ عذر(یعنی دیگر طلباء کو نمازوں کےاوقات میں مدرسہ سے مسجد بھیجنا)کو شرعی عذر قرار دینا مشکل ہے،بلکہ طلباءکومسجدمیں بھیجنےکےلیےنگران طلباءیااستاذ طلباءکو مسجدمیں بھیج کرخودان کے ساتھ نماز باجماعت ادا کرسکتے ہیں اور یہ طریقہ عام طورپر اہل مدارس میں چلاآرہاہے،جب کہ سوال میں ذکرکردہ مذکورہ طریقہ میں دوقباحتیں ہیں،ایک یہ کہ ان طلباء کی مسجدکی جماعت سے محرومی،دوم یہ کہ وہ طلباء اذان کے بعدمسجدسے نکلنے کی کراہت کے مرتکب ہوتے ہیں،اس لیے مذکورہ صورت میں ان طلباءکاعصر اور عشاء کی اذان کے بعد مسجدسے نکلنا اور مسجد کی باجماعت نماز چھوڑکر ساتھ مدرسہ کے دار الاقامۃ میں وہاں اپنی نماز اداکرنا درست نہیں ہے ،بلکہ مکروہ تحریمی ہے،اس لیے اس کی بہتر اور افضل صورت یہ ہے کہ ذمہ دار طلباء عصراور عشاء کی نمازمسجدمیں جاکرپڑھیں یاپھریہ نگران طلباء اذان ہونے سے پہلے مسجدسے نکل جائیں ۔
نیز حدیث میں ” بعد النداء“سے اذان کےبعد مسجدسے باہر نکلنا مرادہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وكره) تحريما للنهي (خروج من لم يصل من مسجد أذن فيه) جرى على الغالب والمراد دخول الوقت أذن فيه أو لا (إلا لمن ينتظم به أمر جماعة أخرى) أو كان الخروج لمسجد حيه ولم يصلوا فيه، أو لأستاذه لدرسه، أو لسماع الوعظ أو لحاجة ومن عزمه أن يعود نهر (و) إلا (لمن صلى الظهر والعشاء) وحده (مرة) فلا يكره خروجه بل تركه للجماعة (إلا عند) الشروع في (الإقامة) فيكره لمخالفته الجماعة بلا عذر. بل يقتدي متنفلا لما مر (و) إلا (لمن صلى الفجر والعصر والمغرب مرة) فيخرج مطلقا (وإن أقيمت) لكراهة النفل بعد الأوليين، وفي المغرب أحد المحظورين البتيراء أو مخالفة الإمام بالإتمام.
قوله وكره تحريما للنهي) وهو ما في ابن ماجه «من أدرك الأذان في المسجد ثم خرج لم يخرج لحاجة وهو لا يريد الرجوع فهو منافق» وأخرج الجماعة إلا البخاري عن أبي الشعثاء قال " كنا مع أبي هريرة في المسجد، فخرج رجل حين أذن المؤذن للعصر. قال أبو هريرة: أما هذا فقد عصى أبا القاسم "والموقوف في مثله كالمرفوع بحر (قوله من مسجد أذن فيه) أطلقه، فشمل ما إذا أذن وهو فيه أو دخل بعد الأذان كما في البحر والنهر.
(قوله والمراد) بحث لصاحب البحر حيث قال: والظاهر أن مرادهم من الأذان فيه هو دخول الوقت وهو داخله، سواء أذن فيه أو في غيره، كما أن الظاهر من الخروج من غير صلاة عدم الصلاة مع الجماعة، سواء خرج أو مكث بلا صلاة كما نشاهده من بعض الفسقة، حتى لو كانت الجماعة يؤخرون لدخول الوقت المستحب كالصبح مثلا فخرج ثم رجع وصلى معهم ينبغي أن لا يكره، ولم أره كله منقولا اهـ وجزم بذلك كله في النهر لدلالة كلامهم عليه (قوله إلا لمن ينتظم به أمر جماعة أخرى) بأن كان إماما أو مؤذنا تتفرق الناس بغيبته لأنه ترك صورة تكميل معنى، والعبرة للمعنى بحر. وظاهر الإطلاق أن له الخروج ولو عند الشروع في الإقامة، وبه صرح في متن الدرر والقهستاني وشرح الوقاية.
(قوله أو كان الخروج لمسجد حيه إلخ) أي وإن لم يكن إماما ولا مؤذنا كما في النهاية. قال في البحر: ولا يخفى ما فيه إذ خروجه مكروه تحريما والصلاة في مسجد حيه مندوبة، فلا يرتكب المكروه لأجل المندوب ولا دليل يدل عليه.
قلت: لكن تتمة عبارة النهاية هكذا لأن الواجب عليه أن يصلي في مسجد حيه، ولو صلى في هذا المسجد فلا بأس أيضا لأنه صار من أهله. والأفضل أن لا يخرج لأنه يتهم اهـ ومثله في المعراج فتأمل، وقيد بقوله ولم يصلوا فيه تبعا لما في شروح الهداية لأنه لو صلوا في مسجد حيه لا يخرج نهاية لأنه صار من أهل هذا المسجد بالدخول.
(قوله أو لأستاذه إلخ) معطوف على حيه أي أو لمسجد أستاذه. قال في المعراج ثم للمتفقه جماعة مسجد أستاذه لأجل درسه أو لسماع الأخبار أو لسماع مجلس، العامة أفضل بالاتفاق لتحصيل الثوابين اهـ ومثله في النهاية. وظاهره أنه إنما يخرج إذا خشي فوات الدرس أو بعضه وإلا فلا، وأنه لا يتوقف على أن يكون الدرس مما يجب تعلمه عليه. وفي حاشية أبي السعود أن ما أورده في البحر في مسجد الحي وارد هنا.
(قوله أو لحاجة إلخ) بحث لصاحب النهر أخذه من الحديث المار (قوله بل تركه للجماعة) يعني أن نفي الكراهة المفهوم من الاستئناء ليس من كل وجه، بل المراد نفي كراهة الخروج من حيث ذاته؛ وأما من حيث سببه، وهو كونه قد صلى تلك الصلاة وحده فإنه مكروه؛ بمعنى أنه لو صلى وحده ليخرج يكره له ذلك لأن ترك الجماعة مكروه لأنها واجبة أو سنة مؤكدة قريبة منه."
(کتاب الصلاۃ، باب ادراک الفریضة، ج: 2، ص: 54۔55، ط: سعید)
مرقاۃ المفاتیحمیں ہے:
"(وعنه) أي: عن أبي هريرة (قال: أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أي: بأمر بينه بقوله: (إذا كنتم في المسجد فنودي) أي: أذن أو أقيم (بالصلاة فلا يخرج أحدكم حتى يصلي) : قال الطيبي: المأمور به محذوف، وقوله: إذا كنتم إلخ. مقول للقول، وهو حال بيان للمحذوف، والمعنى أمرنا أن لا نخرج من المسجد إذا كنا فيه وسمعنا الأذان حتى نصلي " قائلا إذا كنتم " اهـ.
وفيه تكلف بل تعسف، لكن يوضحه كلام ابن حجر، أي:أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم أن لا نخرج من المسجد بعد سماع أذانه، لكن ليس بصيغة أمر بل بما يدل عليه، وهو قوله: إذا كنتم إلخ، قال صاحب الهداية: يكره له الخروج حتى يصلي فيه."
(کتاب الصلاۃ، باب الجماعة وفضلہا، ج: 3، ص: 843، ط: دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606102287
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن