1۔۔۔میرے شوہر سے میری بحث ہوئی کہ مجھے میرے ابو کے گھر چھوڑ دیں؛ کیونکہ میری گردن میں بہت شدید درد تھا، جس کا علاج بھی چل رہا تھا، اور میرے شوہر کو بھی یہ بات پتہ تھی۔ میں اپنے شوہر سے اپنی امی کے گھر جانے کی ضد اس لیے کر رہی تھی کیونکہ میری موجودگی میں میری ساس گھر کے سارے کام خود کرے مجھے اچھا نہیں لگتا ۔جب یہ بات میں نے اپنے شوہر سے کہی تو انہوں نے کہا کہ گھرمیں ہی آرام کرو ۔جس پر مجھے غصہ آیا، اور میں نے ان سے بحث شروع کر دی، اور غصے میں کہا کہ میری اس گھر میں شادی نہیں ہونی چاہیے تھی، مجھے یہاں کوئی نہیں سمجھتا ،اس پر میرے شوہر نے کہا تو چپ کر جا، پھر وہ کسی کام سے گھر سے باہر چلا گیا، جب وہ واپس آیا تو میں رو رہی تھی، اور میری آواز تیزتھی، جس پر انہوں نے مجھے تکیہ مارااور کہا آواز بند کر لے ورنہ میں تجھے ماروں گا۔ میں نے پھر ہلکی آواز کر لی تھی، لیکن وہ غصے میں آگئے اور مجھے دوبار یہ کہہ دیا کہ میں اپنے پوری ہوش حواس میں تمہیں طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں، ایک پہلے دے چکا ہوں ستمبر کے مہینے میں، ہو گئی طلاق چل نکل۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا طلاق ہو گئی ؟
2۔۔۔پہلی طلاق کے بعد رجوع بھی ہوا تھا، کیا ایک طلاق کے بعد رجوع کرنے سے طلاق ضائع ہو جاتی ہے یا نہیں ؟سورۃ البقرۃ پارہ نمبر دو میں طلاق کے متعلق کچھ آیات ہیں جن کا مفہوم اس طرح بن رہا ہے کہ پہلی طلاق ضائع ہو گئی تو شاید گنجائش ہے تو آپ گنجائش دیکھتے ہوئے اس بات پر بھی غور فرمائیں۔
3۔۔۔اور اگر طلاق ہو گئی ہے توعدت کے حوالے سے عدت کی مدت اور طریقہ بھی بتا دیں۔
4۔۔۔میں حجاب میں جاتی ہوں لیکن پہلےشرعی پردہ کااہتمام نہیں کیا اس کا کوئی کفارہ ہے تو وہ بھی بتا دیں۔
5۔۔۔میں تین مہینے تک عدت نہیں کر سکتی، کیونکہ میرا بیٹا شدید بیمار ہو جاتا ہے، عدت کا کوئی آسان اور کم وقت کا طریقہ اوراس کا کفارہ بھی بتادیں، بچے کی وجہ سے ہسپتالوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور بچہ کسی اور کے پاس نہیں بہلتا، مہربانی فرما کر میری رہنمائی فرمائیں ۔
1۔۔۔ایک طلاقِ رجعی دینے کے بعد رجعت کرلینے کی صورت میں آئندہ شوہر کو صرف دو طلاق کا حق باقی رہتا ہے،ایک طلاق کے بعد شوہر نے مزید دو طلاقیں بھی دیدی ہیں تو مجموعی اعتبار سے بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں اور بیوی مغلظہ بائنہ ہوکر شوہر پر حرام ہوگئی، اب رجعت کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ اور میاں بیوی ایک دوسرے پر حرام ہوچکے ہیں ،لہذا اب رجوع جائز نہیں ، اور تجدیدِ نکاح کی بھی اجازت نہیں ہے۔مطلقہ عدت گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے،مطلقہ کا دوسری جگہ نکاحِ صحیح ہوجائے اور دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے، یا وہ وظیفہ زوجیت ادا کرنے کے بعد از خود طلاق دے دے، تو اس کی عدت گزارنے کے بعد سابق شوہر سے نکاح کی اجازت ہوگی۔
قرآن مجید میں ہے:
"﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾."
ترجمہ:"پھر اگرکوئی طلاق دے دے عورت کو توپھر وہ اس کے لیے حلال نہ رہےگی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ نکاح کرلے۔"(سورۃ البقرة،آیت : 230،از بیان القرآن)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"وإن کان الطلاق ثلاثا في الحرۃ وثنتین في الأمة، لم تحل له حتی تنکح زوجا غیرہ نکاحا صحیحا، ویدخل بها، ثم یطلقها أو یموت عنها."
(کتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة، فصل فیما تحل به المطلقة،ج:1،ص:473،ط:رشیدیه)
2۔۔۔اگر شوہر نے اپنی بیوی کو ایک طلاق دی اور عدت کے دوران رجوع کر لیا، تو اس رجوع کے باوجود وہ ایک طلاق شمار ہوگی اور باقی صرف دو طلاقوں کا اختیار شوہر کو باقی رہے گا۔ رجوع کرنے سے پہلی طلاق منسوخ نہیں ہوتی، بلکہ وہ اپنی جگہ باقی رہتی ہے اور شمار کی جاتی ہے۔اگر عدت کے اندر رجوع کے بعد شوہر مزید دو طلاقیں دے دے، تو یوں مجموعی طور پر تین طلاقیں واقع ہو جائیں گی اور بیوی شوہر پر حرام ہو جائے گی۔ باقی آپ کا یہ کہنا کہ سورۃ البقرۃ میں طلاق کے متعلق آیات کا مفہوم یہ ہے کہ پہلی طلاق ضائع ہو گئی تو پھر دو طلاقوں کی شاید گنجائش ہو ،یہ آپ کی غلط فہمی ہے،سورۃالبقرۃ کی ان آیات میں اس طرح کی کوئی بات نہیں ہے ۔قرآن مجید کے احکام کو خود سے نکالنے کے بجائے کسی مستند عالمِ دین سے رجوع کرنا چاہیے، اور شرعی مسائل کے لیے معتبر دارالافتاء یا متدین مفتی سے فتویٰ لینا ہی درست طریقہ ہے۔
فتح القدیرمیں ہے:
"فصار كما لو تزوجها قبل التزوج أو قبل إصابة الزوج الثاني حيث تعود بما بقي من التطليقات."
(باب الرجعة،فصل فيما تحل به المطلقة،ج:4،ص:183،ط:دارالفکربيروت)
3۔۔۔واضح رہے کہ مطلقہ (طلاق شدہ)عورت اگر شادی شدہ ہو اور نکاح کے بعد زوجین کے درمیان خلوتِ صحیحہ یا ہمبستری ہوگئی ہو تو اس مطلقہ عورت کواگر حیض (ماہواری)آتا ہوتو اس کی عدت تین حیض(ماہواری) ہے، اور اس کا دورانیہ عورتوں کی عادت کے اختلاف کی وجہ سے کم وبیش ہوسکتا ہے، اور جس عورت کو کم عمری یا عمر کی زیادتی یا بیماری کی وجہ سے حیض (ماہواری) نہ آتا ہوتو اس کی عدت تین ماہ ہے،البتہ طلاق کے فوراً بعد حاملہ عورت کی عدت بچے کی ولادت تک ہے۔
معتدہ (عدت والی عورت)کےلیےدرجہ ذیل باتوں سےاجتناب ضروری ہے: زیب و زینت اختیار کرنا، خوش بو لگانا،سر میں تیل لگانا، سرمہ لگانا، مہندی لگانا، بلاعذرِ شرعی گھر کی چار دیواری سے باہر نکلنا،سفر کرنا، خوشی غمی کے موقع پر گھر سے نکلنا، نکاح یا منگنی کرنا وغیرہ یہ سب امور ناجائز ہیں، البتہ ضرورت کے طور پر مثلاً اگر سر درد ہو ،یا سر میں جوئیں پڑگئی ہوں تو علاج کے طور پر سر میں تیل لگانے کی اجازت ہے۔نیز دورانِ عدت گھر میں کسی مخصوص کمرے میں بیٹھنا ضروری نہیں، معتدہ پورے گھر میں گھوم پھر سکتی ہے اور گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے کھلے آسمان تلے بھی جاسکتی ہے،اور بوقتِ ضرورت اگر گھر پر علاج کی صورت نہ بن سکے تو علاج کے لیے ڈاکٹر کے پاس بھی جاسکتی ہے، گھریلو کام کاج بھی کرسکتی ہے۔
تحفة الفقہاء میں ہے:
"وأما عدة الطلاق فثلاثة قروء في حق ذوات الأقراء إذا كانت حرة .....وأما في حق الحامل فعدتها وضع الحمل لا خلاف في المطلقة لظاهر قوله: {وأولات الأحمال أجلهن أن يضعن حملهن ."
( كتاب الطلاق، باب العدة،ج:2، ص:244، ط: دار الكتب العلمية،بيروت )
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."
(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:511، ط: سعید)
الدر المختار میں ہے:
"(تحد) بضم الحاء وكسرها كما مر (مكلفة مسلمة ولو أمة منكوحة) بنكاح صحيح ودخل بها، بدليل قوله (إذا كانت معتدة به أو موت) وإن أمرها المطلق أو الميت بتركه لانه حق الشرع، إظهارا للتأسف على فوات النكاح (بترك الزينة) بحلي أو حرير أو امتشاط بضيق الاسنان (والطيب) وإن لم يكن لها كسب إلا فيه (والدهن) ولو بلا طيب كزيت خالص (والكحل والحناء ولبس المعصفر والمزعفر) ومصبوغ بمغرة أو ورس (إلا بعذر)."
(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الحداد، ص249، دار الكتب العلمية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".
(كتاب الطلاق ، باب العدة،ج:3ص:536، ، ط: سعيد)
4۔۔۔واضح رہےکہ پردہ نہ کرنےپرکوئی متعین کفارہ شریعت میں نہیں، البتہ اگرکوئی شخص کسی گناہ سےتوبہ کرنےکےبعدگناہ کےوبال سے بچنےکےلیےاپنےطورپرصدقہ کرےتویہ بہترعمل ہے۔
مرقاۃالمفاتیح میں ہے:
" (وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الصدقة لتطفئ غضب الرب وتدفع ميتة السوء )...ويجوز أن يحمل إطفاء الغضب على المنع من إنزال المكروه في الدنيا، كما ورد: لا يرد القضاء إلا الصدقة، وموت السوء على سوء الخاتمة ووخامة العاقبة من العذاب في الآخرة، كما ورد: الصدقة تطفئ الخطيئة، وقد سبق أنه من باب إطلاق السبب على المسبب، وقد تقرر أن نفي المكروه لإثبات ضده أبلغ من العكس، فكأنه نفى الغضب وأراد الرضا ونفى الميتة السوء وأراد الحياة الطيبة في الدنيا والجزاء الحسن في العقبى، وعليه قوله - تعالى - {فلنحيينه حياة طيبة ولنجزينهم أجرهم بأحسن ما كانوا يعملون} [النحل: 97]."
(ج:4،باب فضل الصدقة،الفصل الثاني،ص:1341:،رقم الحدیث:1909،ط:دارالفکربیروت)
5۔۔۔واضح رہےکہ عدت کی مدت نص قطعی(یعنی قرآن مجید)سےثابت ہےلہذااپنی طرف سےاس میں کمی بیشی کرنےکی کوئی گنجائش نہیں،ہاں اگرکوئی شدیدمجبوری کی بناءپر گھرسےنکلناپڑرہاہوتوکچھ وقت کےلیےگھرسےباہرنکلنےکی گنجائش ہے۔لہذاصورتِ مسئولہ میں اگرسائلہ کا چھوٹابچہ زیادہ بیمارہے،اورکوئی رشتہ دار اس کوہسپتال لےجانےوالانہیں ،اورگھر پربھی علاج کی صورت نہیں بن سکتی تواس صورت میں علاج کے لیے کسی قریبی ڈاکٹر کے پاس جاسکتی ہے۔لیکن ضرورت پوری ہونے پرجلدی گھرواپس آجائے،گھرسےباہررات گزارنےکی اجازت نہیں ہے۔بصورتِ دیگرباہرجانےکی اجازت نہیں ہوگی۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"(ولنا) الكتاب، والسنة، والمعقول أما الكتاب الكريم فقوله تعالى {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء} [البقرة: 228] أمر الله تعالى بالاعتداد بثلاثة قروء، ولو حمل القرء على الطهر لكان الاعتداد بطهرين، وبعض الثالث؛ لأن بقية الطهر الذي صادفه الطلاق محسوب من الأقراء عنده، والثلاثة اسم لعدد مخصوص، والاسم الموضوع لعدد لا يقع على ما دونه فيكون ترك العمل بالكتاب...وأما السنة فما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال «طلاق الأمة ثنتان، وعدتها حيضتان» ، ومعلوم أنه لا تفاوت بين الحرة، والأمة في العدة فيما يقع به الانقضاء؛ إذ الرق أثره في تنقيص العدة التي تكون في حق الحرة لا في تغيير أصل العدة، فدل أن أصل ما تنقضي به العدة هو الحيض وأما المعقول فهو أن هذه العدة وجبت للتعريف عن براءة الرحم، والعلم ببراءة الرحم يحصل بالحيض لا بالطهر فكان الاعتداد بالحيض لا بالطهر."
(كتاب الطلاق،فصل في بيان مقادير العدة وما تنقضي به،ج:3ص:194،دارلکتب بیروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولايخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لاتجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه".
(كتاب الطلاق،باب العدة،ج:3ص:536،ط:سعيد)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144610100316
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن