عورت نے دوسری شادی کر لی، لیکن سابقہ خاوند نے اعتراض اٹھا دیا کہ میری سابقہ بیوی نے عدت پوری ہونے سے پہلے دوسرا نکاح کر لیا ہے، لیکن عورت کا کہنا ہے کہ اس نے عدت پوری ہونے کے بعد دوسرا نکاح کیا ہے، ایسے میں کس کی گواہی درست مانی جائے گی؟
واضح رہے کہ اگر طلاق واقع ہونے کے وقت میں میاں بیوی کا اتفاق ہو، البتہ عدت گزرنے یا نہ گزرنے میں اختلاف ہو تو عدت کے ایام گزرنے کے بارے میں عورت کی بات کا اعتبار ہوتا ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں جب عورت کا یہ کہنا ہے کہ میں نے عدت کے بعد نکاح کیا ہے ، اور درمیان کی مدت میں اس بات کا احتمال بھی موجود ہے کہ اتنی مدت میں عدت پوری ہوسکتی ہے، تو اس صورت میں عورت کے قول کا اعتبار ہوگا، اور عورت کا دوسری جگہ نکاح کرنا درست ہوگا اور اگر درمیان کی مدت میں اس بات کا احتمال موجود نہ ہو کہ اس میں عدت پوری ہوسکتی ہو تو اس صورت میں عورت کا دوسری جگہ نکاح کرنا درست نہ ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: ثم إنما تعتبر المدة) يعني أن في المسائل التي يقبل فيها قولها " انقضت عدتي ": لا بد من كون المدة تحتمل ذلك، ثم إنما يشترط احتمال المدة ذلك إذا كانت العدة بالحيض فلو كانت العدة بوضع الحمل ولو سقطا مستبين الخلق فلا تشترط مدة اهـح وسيأتي آخر الباب بيان المدة".
(کتاب الطلاق ،باب الرجعة ج: 3 ص: 401 ط: سعید)
وفیہ ایضا:
"(قالت: مضت عدتي والمدة تحتمله وكذبها الزوج قبل قولها مع حلفها وإلا) تحتمله المدة (لا) لأن الأمين إنما يصدق فيما لا يخالفه الظاهر".
(کتاب الطلاق ، باب العدت ج: 3 ص: 523 ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144507101770
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن