بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

عدت کی ابتدا کب سے ہو گی؟


سوال

اگر میاں بیوی میں عرصہ 6 ماہ یا اس سے زیادہ مدت سے ازدواجی تعلقات نہ ہوں تو طلاق کے بعد عدت کی مدت اور طریقہ بیان فرمائیں ۔

جواب

طلاق یافتہ عورت کی عدت طلاق کے وقت سے شروع ہوگی، طلاق کے بغیر جو میاں بیوی میں دوری رہی اس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا، لہذا عدت میں بھی اس کا اعتبار نہیں، تاہم اگر نکاح کے بعد رخصتی یا خلوتِ صحیحہ نہ ہوئی ہو تو طلاق کے بعد عدت نہیں ہے۔

 نکاح کے بعد رخصتی یا خلوتِ صحیحہ ہوچکی ہو تو طلاق کے بعد عدت مکمل تین ماہواریاں گزرنا ہے، بشرط یہ کہ عدت گزارنے والی خاتون امید سے نہ ہو، اگر وہ امید سے ہے تو اس کی عدت وضع حمل (بچے کی پیدائش تک) ہوگی۔ 

    طلاق کی عدت کے دوران عورت کے لیے بلاضرورتِ شدیدہ گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں، اگر طلاقِ بائن ہو  تو زیب و زینت اختیار کرنا جائز نہیں، اگر طلاقِ رجعی ہو تو بیوی کے لیے زیب و زینت اختیار کرنا جائز ہے، بلکہ بہتر ہے، تاکہ شوہر رجوع پر آمادہ ہو۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ابتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق، و في الوفاة عقيب الوفاة، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت عدتها، كذا في الهداية".

(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة، 1 / 532، ط: رشیدیہ)

وفيه أيضا:

"وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي. سواء كانت حاملا وقت وجوب العدة أو حبلت بعد الوجوب كذا في فتاوى قاضي خان."

(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر في العدة،1 / 527 ط: دار الفکر)

الدر المختار میں ہے:

"و) الإياس (سنة) للرومية وغيرها (خمس وخمسون) عند الجمهور وعليه الفتوى."

(رد المحتار، کتاب الطلاق ، باب العدۃ3/ 515 ط: ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا تخرج معتدة رجعي وبائن) بأي فرقة كانت على ما في الظهيرية ولو مختلعة على نفقة عدتها في الأصح اختيار، أو على السكنى فيلزمها أن تكتري بيت الزوج معراج (لو حرة) أو أمة مبوأة ولو من فاسد (مكلفة من بيتها أصلا) لا ليلا ولا نهارا ولا إلى صحن دار فيها منازل لغيره ولو بإذنه لأنه حق الله تعالى

(قوله: ولو بإذنه) تعميم أيضا لقوله ولا تخرج، حتى إن المطلقة رجعيا وإن كانت منكوحة حكما لا تخرج من بيت العدة."

(رد المحتار، کتاب الطلاق ، باب العدۃ 3/ 535 ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100381

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں