بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

اہل تشیع سے موٹر وغیرہ کا کام کرواسکتے ہیں


سوال

1۔کیا اہلِ تشیع  سے موٹرکار وغیرہ کا کام کرواسکتے ہیں؟

2۔اور اہل تشیع کے گھر کا یا کسی ہوٹل کا بنایا ہوا کھانا  کھا سکتے ہیں یا نہیں؟ 

جواب

1۔اہل تشیع کے کاریگر اور مزدور وغیرہ سے کام  کرواسکتے ہیں، البتہ  نہ کروانا  بہتر  ہے۔

2۔  اگر اہل تشيع كے كھانے میں کوئی حرام چیز ملی ہوئی نہ ہو یا وہ حرام اور ناپاک نہ ہو  تو  عام احوال میں ان کے گھر کااورا ن کے ہوٹل کا بنایا ہوا کھانا  پیناحرام نہیں ہے، البتہ ان کی مذہبی تقریبات میں شریک ہوکر ان کے ساتھ کھانا کھانا اور ان سے دوستانہ تعلقات  رکھنا جائز نہیں ہے، اسی طرح عام احوال میں بھی ان کے ساتھ کھانے کا معمول بنانا صحیح نہیں ہے،اورخاص مناسبات (محرم،رجب وغیرہ کے یوم) میں خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء بنانااور تقسیم کرنا بدعت ہے،لہذا ان کے کھانے پینے سے تو بالکل اجتناب کرناچاہیے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"﴿ وَلَا تَرْكَنُوْآ اِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ اَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ﴾." [هود: 113]

ترجمہ:" اور (اے مسلمانوں) ان ظالموں کی طرف مت جھکو، کبھی تم کو دوزخ کی آگ لگ جاوے اور خدا کے سوا تمہارا کوئی رفاقت کرنے والا نہ ہو پھر حمایت تو تمہاری ذرا بھی نہ ہو۔"

(سورہ ہود، رقم الآیۃ:113، ترجمہ:بیان القرآن)

 الزواجر عن اقتراف الکبائر میں ہے:

"قال مالك بن دینار :  أوحی الله إلی النبي من الأنبیاء  أن قل لقومک: لا یدخلوا مداخل أعدائي، ولا یلبسوا ملابس أعدائي، ولا یرکبوا مراکب أعدائي، ولا یطعموا مطاعم أعدائي، فیکونوا أعدائي، کما هم  أعدائي".

 (خاتمة فی التحزیر من جملة المعاصی کبیرها وصغیرها، ج: 1، ص:15، ط: دارالمعرفۃ، بیروت)

مرقاة المفاتيح میں ہے :

"قال تبعا للقاضي حسين: والفرق بين المداراة والمداهنة أن المداراة بذل الدنيا لصلاح الدنيا أو الدين أو هما معا، وهي مباحة، وربما استحسنت، والمداهنة بذل الدين لصلاح الدنيا اهـ. وهذه فائدة جليلة ينبغي حفظها والمحافظة عليها، فإن أكثر الناس عنها غافلون وبالفرق بينهما جاهلون."

(كتاب الآداب، باب حفظ اللسان والغيبة والشتم، ج7، ص3034، دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمي معاملة إذا كان مما لا بد منه كذا في السراجية".

(كتاب الكراهية،الباب الخامس عشر في الكسب، ج: 5، ص: 348، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" ولم یذکر محمد رحمة اللہ تعالٰی الأکل مع المجوس ومع غیرہ من أهل الشرك أنه هل یحرم أم لا حکي عن الحاکم الإمام عبد الرحمٰن الکاتب أنه ان ابتلي به المسلم مرۃ او مرتین فلا بأس به أما الدوام علیه فیکرہ کذا في المحیط."

(كتاب الكراهية،  الباب العاشر في اهل الذمةوالاحكام التي تعود اليهم، ج: 5،ص: 348،ط: دار  الفكر بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144509102397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں