بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

احرام کی حالت میں خوشبو والا صابن استعمال کرنے کا حکم


سوال

احرام باندھ لیا عمرہ کی نیت بھی کر لی اس کے بعد بے خیالی میں ڈیٹول صابن سے ہاتھ دھو بیٹھا، ڈیٹول صابن جو پاکستان میں عام استعمال میں ہے ، اب اس سے دم یا صدقہ واجب ہوا کہ نہیں؟

جواب

صابن کے ذریعے صفائی مقصود ہوتی ہے، خوشبو مقصود نہیں ہوتی، اسے دیکھنے والا اسے خوشبو نہیں سمجھتا، بلکہ صفائی کا ذریعہ سمجھتا ہے، اس میں خوشبو کے اجزا کم اور صفائی کے اجزا زیادہ ہوتے ہیں، اس  لیے  احرام کی حالت میں  ڈیٹول  صابن  سے  ہاتھ دھوئے ہوں تو  دم لازم نہیں ہوگا، البتہ صدقۂ فطر کے برابر صدقہ کرنا لازم  ہوگا۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويستوي في وجوب الجزاء بالتطيب الذكر والنسيان والطوع والكره والرجل والمرأة، هكذا في البدائع."

(كتاب المناسك ،الباب الثامن في الجنايات، الفصل الأول في ما يجب بالتطيب،ج:1،ص:241،ط:رشيدية)

المحيط البرهاني میں ہے:

"وفي «المنتقى» هشام عن محمد رحمه الله: إذا غسل المحرم يده بأشنان فيه طيب، فإن كان إذا نظروا إليه قالوا: هذا أشنان ففيه الصدقة، وإن قالوا: هو طيب فعليه الدم."

( كتاب المناسك، الفصل الخامس: فيما يحرم على المحرم بسبب إحرامه وما لا يحرم،ج:2،ص454،ط ،دار الكتب العلمية بيروت )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144510101467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں