ہم نے ایک کام کا ٹھیکہ لیا، درمیان میں کام کرانے والے نے بہانے کرکے ٹھیکہ ایگریمنٹ ختم کردیااور جتنا کام ہم نے کیا تھا،اس کے بقدر ہمیں رقم دیدی،اور پھر کام کا ٹھیکہ کسی اور کو ، جس کو ٹھیکہ پر دیا اس نے کہا کہ پہلے والے ٹھیکہ دار نے بہت مہنگا دام لگایا تھا، یہ کام تو سستا ہے، اس پر اس نے ہمارے آلات وغیرہ پر قبضہ کرلیا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ہمیں اس دیے گئے رقم میں سے ڈیڑھ لاکھ روپے واپس کریں ۔ کیا بلا وجہ حیلے بہانے کرکے ایگریمنٹ کو توڑنا جائز ہے؟ اور ان کا یہ مطالبہ شرعاً درست ہے؟
1۔صورتِ مسئولہ میں سائل ( ٹھیکہ دار ) کو جو کام سونپا گیا تھا، اگر سائل اور اس کے ساتھ دیگر مزدور واقعتاً سونپے گئے کام کے اہل تھےاور انہوں نے کسی قسم کی بددیانتی کا ارتکاب نہیں کیا تھا، لیکن مالک نے بلاوجہ ایگریمنٹ ختم کردیا تو اس طرح ایگریمنٹ توڑنا مالک کے لیے جائز نہیں تھا ،تاہم چوں کہ ٹھیکہ دار نے عملاً اپنی مزدوری لے کر ایگریمنٹ کو فسخ کر دیا ہے،اس لیے پہلے والا ٹھیکہ کا معاہدہ اختتا پذیر ہوچکا ہے۔
2۔مالک کا سائل (ٹھیکہ دار ) کے آلات پر دوسرے شخص کے کہنے پر قبضہ جمالینا کہ ٹھیکہ مہنگا لیا تھااور اس کے بدلے ڈیڑھ لاکھ روپے کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔اس پر لازم ہے کہ ٹھیکیدار کا سامان اس کے حوالے کرے، ورنہ آخرت میں بدترین عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"فقالوا: إن كانت الإجارة لغرض ولم يبق ذلك الغرض أو كان عذر يمنعه من الجري على موجب العقد شرعا تنتقض الإجارة من غير نقض۔۔۔وإذا تحقق العذر ومست الحاجة إلى النقض هل يتفرد صاحب العذر بالنقض أو يحتاج إلى القضاء أو الرضاء اختلفت الروايات فيه والصحيح أن العذر إذا كان ظاهرا يتفرد، وإن كان مشتبها لا يتفرد. كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الإجارة، باب فسخ الإجارة، ج: 4، ص: 458، ط: دار الفكر)
وفيه أيضاً:
"إذا استأجر أستاذا ليعلمه هذا العمل في هذه السنة فمضى نصف السنة فلم يعلمه شيئا فللمستأجر أن يفسخ. ما رأيت رواية في هذا لكن أفتى الشيخ الإمام علي الإسبيجابي فأفتيت أنا أيضا. كذا في الصغرى.
ولو كان العبد غير حاذق للعمل الذي استأجره عليه فهذا لا يكون عذرا للمستأجر في فسخ الإجارة فإن كان عمله فاسدا كان له الخيار. كذا في المحيط."
(كتاب الإجارة، باب فسخ الإجارة، ج: 4، ص: 461، ط: دار الفكر)
وفيه أيضاً:
"وليس للمؤاجر أن يفسخ الإجارة إذا وجد زيادة على الأجرة التي آجر بها، وإن كان أضعافا. كذا في غاية البيان."
(كتاب الإجارة، باب فسخ الإجارة، ج: 4، ص: 459، ط: دار الفكر)
وفيه أيضاً:
"(أما تفسيرها شرعا) فهي عقد على المنافع بعوض، كذا في الهداية."
(كتاب الإجارة، ج: 4، ص: 409، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601102383
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن