بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

مکان پر قبضہ دینے سے پہلے کرایہ وصول کرنے کا حکم


سوال

کراچی کے علاقے ملیر کینٹ میں کرائے پر گھر لینے کے لیے ملیر کینٹ  اتھارٹی سے  NOC لینا ضروری  ہوتا ہے ، NOCکے بغیر کرائے کے گھر میں شفٹ نہیں ہوسکتے  ،دوسال پہلے میرے بیٹے نے ایک گھر  کرائے پر لیا  ، مالک مکان نے معاہدہ  کے بعد کرایہ شروع کرنے کے لیے دس دن کا وقت دیا، میرے بیٹے نے مالک مکان کی یہ بات مان لی، وہ اس لیے کہ اسٹیٹ ایجنٹ نے کہا کہ  NOCدس دن میں مل جائے گی،NOCآنے میں پورے دو مہینے لگے ، NOCآنے  کے بعد ہی مالک مکان نے میرے بیٹے کو گھر میں شفٹ ہونے کے لیے چابیاں دیں ، مالک مکان  نے میرے بیٹے سے ایک بالکل خالی گھر کا دو مہینے کا کرایہ لیا ۔

1۔آپ سے سوال ہے   کہ کیا مالک مکان   کے لیے  میرے بیٹے سے خالی گھر  کا کرایہ لینا جائز ہے ؟

2۔ کیا مالک مکان کو خالی گھر کا دومہینے کا کرایہ واپس کرنا جائز ہے ؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں جب مالک مکان نے NOC آنے سے قبل سائلہ کے بیٹے  کو مکان کی چابیاں دےکر مکان سے فائدہ اٹھانے کاحق  دیا ہی نہیں، بلکہ چابیاں اپنے قبضے میں رکھیں اور نہ ہی سائلہ کا بیٹا اس مکان میں رہائش اختیار کرنے پر قادر تھا  تو مالک مکان کے لیے  NOC ملنے اور چابی حوالہ کرنے سے پہلے کے زمانے کا کرایہ لیناشرعًا جائز نہیں۔

2۔مکان کے مالک پر دو مہینوں کا کرایہ واپس کرنا لازم ہے۔

دررالحکام شرح غررالاحکام میں ہے :

(لا يلزم الأجر بالعقد) أي لا يملك بنفس العقد و لا يجب تسليمه به عينا كان أو دينا؛ لأن العقد معاوضة وأحد العوضين منفعة تحدث شيئا فشيئا، والآخر مال و مقتضى المعاوضة المساواة فمن ضرورة التراخي في جانب المنفعة التراخي في البدل (بل بتعجيله) بأن يعطيه قبل حلول الأجل، فإنه يكون هو الواجب بالعقد حتى لا يكون له حق الاسترداد (أو شرطه) أي شرط تعجيله حال العقد، فإنه حينئذ يجب (أو الاستيفاء) أي استيفاء المنفعة المعقود عليها، فإن الأجر حينئذ يجب أيضا (أو تمكنه منه) أي من الاستيفاء وفرع على هذا بقوله (فيجب) أي الأجر (لدار قبضت ولم تسكن) لوجود التمكن من الاستيفاء۔

(کتاب الاجارۃ ج:2،ص:226،ط:دراحیاءالکتب العربیۃ)

بدائع الصنائع میں ہے :

و منها تسليم المستأجر في إجارة المنازل، و نحوها إذا كان العقد مطلقا عن شرط التعجيل بأن لم يشترط تعجيل الأجرة في العقد و لم يوجد التعجيل أيضا من غير شرط عندنا، خلافا للشافعي، بناء على أن الحكم في الإجارة المطلقة لا يثبت بنفس العقد عندنا؛ لأن العقد في حق الحكم ينعقد على حسب حدوث المنفعة فكان العقد في حق الحكم مضافا إلى حين حدوث المنفعة فيثبت حكمه عند ذلك

و عنده تجعل منافع المدة موجودة في الحال تقديرا كأنها عين قائمة فيثبت الحكم بنفس العقد، كما في بيع العين، و هذا أصل نذكره في بيان حكم الإجارة وكيفية انعقادها في حق الحكم إن شاء الله تعالى ونعني بالتسليم التخلية و التمكين من الانتفاع برفع الموانع في إجارة المنازل و نحوها و عبيد الخدمة و أجير الوحد، حتى لو انقضت المدة من غير تسليم المستأجر على التفسير الذي ذكرنا لا يستحق شيئا من الأجر؛ لأن المستأجر لم يملك من المعقود عليه شيئا فلا يملك هو أيضا شيئا من الأجر؛ لأنه معاوضة مطلقة، ولو مضى بعد العقد مدة ثم سلم فلا أجر له فيما مضى لعدم التسليم فيه، ولو أجر المنزل فارغا وسلم المفتاح إلى المستأجر فلم يفتح الباب حتى مضت المدة لزمه كل الأجر لوجود التسليم و هو التمكين من الانتفاع برفع الموانع في جميع المدة فحدثت المنافع في ملك المستأجر فهلكت على ملكه فلا يسقط عنه الأجر، كالبائع إذا سلم المبيع إلى المشتري بالتخلية فهلك في يد البائع كان الهلاك على المشتري؛ لأنه هلك على ملكه، كذا هذا، وإن لم يسلم المفتاح إليه لكنه أذن له بفتح الباب فقال: مر، وافتح الباب فإن كان يقدر على فتح الباب بالمعالجة لزمه الكراء لوجود التسليم وإن لم يقدر لا يلزمه؛ لأن التسليم لم يوجد

(کتاب الاجارۃ ،ج:4،ص:179،ط :دارالکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144303100144

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں