بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ایک وارث کا سارا مال لے لینا


سوال

میری والدہ کے پاس زیورات تھے ، میرے  مالی حالت خراب ہونے کی وجہ سے میری والدہ نے مجھے کچھ زیورات دیےبطورِ گفٹ  اور کہا کہ ان کو اپنے کرایہ میں خرچ کرو، اس کا علم میرے بڑے بھائی کو بھی تھا،تیسرے بھائی بھی مانتے ہیں کہ والدہ نے وہ زیور مجھے مالکانہ طور پر دیا تھا،  اس کے علاوہ بھی زیورات تھے ، جس کی قیمت 60 ، 70 لاکھ روپے ہے ، میری والدہ بڑے بھائی کے پاس رہتی تھی، وفات کے بعد بڑے بھائی کہہ رہے ہیں کہ وہ زیورات والدہ کی بیماری پر خرچ ہوئے، کس طرح خرچ ہوئے ؟ہم میں سے کسی کو نہیں معلوم ، جب کہ ہماری معلومات کے مطابق والد کی فروخت کردہ دکان کی قیمت میں سے والدہ کا حصہ 58 لاکھ آیاتھا،جو بڑےبھائی نے کسی اسلامی بنک میں رکھوایاتھا،وہاں سے آمدنی آتی تھی ، اس میں سے والدہ پر خرچ کرتے تھے ،والدہ کا سونا محفوظ ہے،  ان زیورات کی تقسیم ہو گی یا نہیں والدہ کی میراث میں؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں جب تمام زیورات محفوظ ہیں اور والدہ کی بیماری پر اس رقم میں سے خرچ کیا گیا، جو والدہ کو والد کی دکان کے فروخت کرنےپر ملی تھی، تو   میراث کی تقسیم کی صورت میں ان زیورات کو تمام ورثاء میں تقسیم کیا جائے گااور ہر ایک وارث اس میں اپنے شرعی حصے کی بقدر شریک ہوگا،  اس صورت میں ایک بھائی کا زیورات پر قبضہ کرنا اور باقی ورثا ءکو محروم  کرنا ناجائز اور گناہ ِ کبیرہ ہے،اس لیے  تمام  بھائیوں  کو ان کا حق اور  حصہ  اس دنیا میں دینا لازم اور ضروری ہے ، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا ، احادیثِ مبارکہ  میں اس بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں۔ 

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين."

(کتاب البیوع، باب الغصب والعاریة، ج:1،  ص:254،  ط: قدیمی)

"ترجمہ: حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔ "

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة، رواه ابن ماجه."

(باب الوصایا، الفصل الثالث، ج:1، ص:266 ط: قدیمی)

"ترجمہ :حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔"

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے: 

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ’’ألا لاتظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه ‘‘. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

ترجمہ:خبردار کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرو، خبردار کسی آدمی کی ملکیت کی کوئی چیز اس کی دلی رضامندی کے بغیر لینا حلال اور جائز نہیں ہے ۔

( باب الغصب والعاریة، الفصل الثانی،  ج:2، ص:889،  ط:المكتب الإسلامي - بيروت)

فتاوى حامدية میں ہے:

"(سئل) في امرأة قضت دين رجل لدائنه بغير أمر الرجل وتريد الرجوع على الدائن فهل ليس لها ذلك؟"

"(الجواب) : نعم ومن قضى دين غيره بأمره أو بغير أمره يخرج المقضي به عن ملك القاضي إلى ملك المقضي له من غير أن يدخل في ملك المقضي عنه ألا يرى أن قضاء القاضي عن الميت صحيح مع أن الميت ليس من أهل الملك ابتداء ذخيرة من كتاب المداينات من الفصل الثاني وفي العمادية من أحكام السفل والعلو ‌المتبرع ‌لا ‌يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره. اهـ. أقول ويأتي قريبا في أول كتاب الرهن نقل آخر في هذه المسألة."

(کتاب المداینات، ج:2، ص: 226، ط:دار  المعرفة)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:

"‌لا ‌يجوز ‌لأحد ‌أن ‌يتصرف في ملك الغير بلا إذنه هذه المادة مأخوذة من المسألة الفقهية (لا يجوز لأحد التصرف في مال غيره بلا إذنه ولا ولايته) الواردة في الدر المختار. فعليه إذا أراد شخص أن يبني بناء محاذيا لحائط بناء إنسان فليس له أن يستعمل حائط ذلك الشخص بدون إذنه حتى ولو أذنه صاحب الحائط فله بعدئذ حق الرجوع عن إذنه."

(المادة 97) : "لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي." 

(‌‌المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ج:1، ص:96، ط:دار  الجیل)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة 96) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه."

(‌‌المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ج:1، ص:27، ط:دار  الجیل) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102582

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں