1۔جو ادارے اجتماعی قربانی کرتے ہیں ، ان کے لیے شرعاً کن شرائط کی رعایت رکھنا ضروری ہے ؟
2۔نیز کیا وہ اپنے لیے کمیشن کی مد میں کچھ عوض طے کرسکتے ہیں یا نہیں ؟
3۔نیز گوشت تقسیم کرنے کا کیا طریقہ کار ہونا چاہیے؟مذکورہ مسئلہ میں ہماری دینی رہنمائی فرمائیں ۔
اجتماعی قربانی کرنے والے اداروں کو چند بنیادی شرائط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، جو کہ درج ذیل ہیں :
2۔ اجتماعی قربانی کرنےوالا ادارہ، اگر اجتماعی قربانی کرنے والوں کی طرف سے جانور خرید کر ان کی طرف سے ذبح کرتا ہو تو ایسی صورت میں ادارہ کی حیثیت ”وکیل“ اور ”امین “ کی ہے، اس صورت میں ضابطہ یہ ہے کہ قربانی کے حصہ اور انتظامات پر جو اخراجات آئیں، وہ اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں کو بتاکر ان سے لینا جائز ہے، قربانی کا جانور خریدنے اور اس پرآنے والے تمام اخراجات کے بعد جو رقم بچ جائے وہ حصہ داروں کو واپس کرنا ضروری ہے، اس رقم کو ان کی اجازت کے بغیر اپنے پاس رکھنا ناجائز ہے، ہاں اگر وہ خود ہی خوش دلی سے باقی بچ جانے والی رقم ادارہ کو عطیہ کردیں تو اس صورت میں یہ رقم لینا درست ہے ۔نیز اس صورت میں پہلے سے ہی طے کرکے حق الخدمت/سروس چار جز کے نام سے اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے طے شدہ اجرت وصول کی جاسکتی ہے۔
البتہ اگر اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والے قربانی کا جانور پہلے خود خرید لیں، اور اس جانور پر خود یا اپنے وکیل کے ذریعے قبضہ کرلیں، اس کے بعد جو شخص اجتماعی قربانی میں حصہ لینا چاہے اس کو مکمل جانور یا مطلوبہ حصے (مثلاً ایک، دو یا تین حصے وغیرہ) اپنا منافع رکھ کرفروخت کردیں، اجتماعی قربانی میں شریک ہونے والے شخص کو بتادیں یا رسید پر لکھ دیں کہ فی حصہ اتنے میں فروخت کیا جاتا ہے، پھر ان کی طرف سے نائب بن کر ان کی اجازت سے قربانی کر لیں اور قربانی کے بعد خریدار کو گائے میں سے اس کے حصہ کے بقدر گوشت دے دیں یا وہ جس کو دینے کے لئے کہیں اس کو دے دیں تو یہ صورت بھی جائز ہے اور اس صورت میں حاصل شدہ منافع بھی حلال ہے۔
اسی طرح اگر اجتماعی قربانی کرنے والوں کے پاس فی الحال جانور خریدنے کا انتظام نہیں اور وہ جانور کے بیوپاریوں سے قیمت طے کرلیں اور ان سے وعدہ بیع کرلیں، پھر اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والوں سے بیع کرلیں کہ ہم آپ کو ایک حصہ اتنے میں دیں گے (اور اس میں اپنا منافع رکھ لیں جیسا کہ پہلی صورت میں تھا) اور وعدہ بیع کی مد میں پیشگی ان سے رقم لے لیں، پھر آخر میں جانور خرید لیں اور جانور خریدنے کے بعد ان کا حصہ ان کی طرف سے ذبح کر کے حصہ داروں کو ان کے حصہ کے بقدر دے دیں تو یہ صورت بھی جائز ہے اور اس صورت میں بھی منافع رکھنا جائز ہے۔
3۔اجتماعی قربانی میں حصہ لینے والے ہر شریک کو اس کاحصہ وزن کر کے برابر دینا شرعا لازم ہے ،محض اندازے سے تقسیم کرنے کی اجازت نہیں ہے ،جس گائے میں جو افراد شریک ہوں اس گائے کا گوشت ان ہی حصہ داروں کے درمیان برابر تقسیم کرنا شرعا ضروری ہے ،ایک گائے کے متعین حصہ داروں کے علاوہ دوسری گائے کے شرکاء کو اس گائے کا گوشت دینا جائز نہیں ہے ،کیوں کے ہر گائے کے متعین حصہ دار اپنے اپنے حصہ کے مالک ہو تے ہیں ،اور مالک کی اجازت کے بغیر اس کےحصہ کاگوشت کسی اور کو دینا(خواہ وزن کر کے دیا جائے یا وزن کے بغیر دیا جائے )شرعا جائز نہیں ہے ۔
بدائع الصنائع میں ہے:
" (ومنها) أن تكون نية الأضحية مقارنة للتضحية كما في باب الصلاة؛ لأن النية معتبرة في الأصل فلا يسقط اعتبار القران إلا لضرورة كما في باب الصوم؛ لتعذر قران النية لوقت الشروع لما فيه من الحرج.
(ومنها) إذن صاحب الأضحية بالذبح إما نصا أو دلالة إذا كان الذابح غيره، فإن لم يوجد لا يجوز؛ لأن الأصل فيما يعمله الإنسان أن يقع للعامل، وإنما يقع لغيره بإذنه وأمره فإذا لم يوجد لا يقع له."
( كتاب التضحية، فصل في شرائط جواز إقامة الواجب في الأضحية، ج:5،ص:73-72، ط: دار الكتب العلمية )
درر الحکام في شرح مجلة الأحکام میں ہے:
"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل."
(الکتاب الحادي عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، المادة:1467، ج:3،ص:573،ط:دارالجیل)
الفقہ الإسلامي وأدلتہ میں ہے:
"تصح الوكالة بأجر، وبغير أجر، لأن النبي صلى الله عليه وسلم كان يبعث عماله لقبض الصدقات، ويجعل لهم عمولة . فإذا تمت الوكالة بأجر، لزم العقد، ويكون للوكيل حكم الأجير، أي أنه يلزم الوكيل بتنفيذ العمل، وليس له التخلي عنه بدون عذر يبيح له ذلك."
( الفصل الرابع : نظریة العقد، الوکالة، الوکالة باجر، ج:4،ص؛151،ط: دارالفکر)
فتاوی شامي ميں هے :
"ويقسم اللحم وزنالا جزافا إلا إذا ضم معه الأكارع أو الجلد)صرفا للجنس لخلاف جنسه.(قوله ويقسم اللحم) انظر هل هذه القسمة متعينة أو لا، حتى لو اشترى لنفسه ولزوجته وأولاده الكبار بدنة ولم يقسموها تجزيهم أو لا، والظاهر أنها لا تشترط لأن المقصود منها الإراقة وقد حصلت. وفي فتاوى الخلاصة والفيض: تعليق القسمة على إرادتهم، وهو يؤيد ما سبق غير أنه إذا كان فيهم فقير والباقي أغنياء يتعين عليه أخذ نصيبه ليتصدق به اهـ ط. وحاصله أن المراد بيان شرط القسمة إن فعلت لا أنها شرط، لكن في استثنائه الفقير نظر إذ لا يتعين عليه التصدق كما يأتي، نعم الناذر يتعين عليه فافهم (قوله لا جزافا) لأن القسمة فيها معنى المبادلة، ولو حلل بعضهم بعضا قال في البدائع: أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فيها معنى التمليك واللحم من أموال الربا فلا يجوز تمليكه مجازفةوأما عدم جواز التحليل فلأن الربا لا يحتمل الحل بالتحليل، ولأنه في معنى الهبة وهبة المشاع فيما يحتمل القسمة لا تصح اهـ وبه ظهر أن عدم الجواز بمعنى أنه لا يصح ولا يحل لفساد المبادلة خلافا لما بحثه في الشرنبلاليةمن أنه فيه بمعنى لا يصح ولا حرمة فيه."
(کتاب الاضحیۃ،ج:6،ص:308،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511102470
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن