بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

علاقے کے پہاڑ اور جنگلات کی معدنیات کا حق دار کون ہوگا؟


سوال

باجوڑ میں  ایک علاقہ میں ایک پہاڑ ہے،جس پر جنگلات وغیرہ ہیں، جو گاؤں والوں کی ضروریات میں استعمال ہوتے ہیں، گاؤں والےپہاڑ کے نیچے آباد ہیں، اس پہاڑ میں معدنیات ہیں، اب مسئلہ یہ معلوم کرنا ہے کہ ہمارے پاس تین قسم کے لوگ لوہار،ترکان اور نائی (یعنی پیشہ ور کسب کرنے والے لوگ)ہیں، ان لوگوں کو گاؤں والوں  نے 50 سال قبل باہر سے بلایا تھا، ان لوگوں کو گاؤں والوں نے زمینیں بھی ملکیت کے طور پر دی تھیں،اب ان کے خاندان والے وہاں آباد ہیں۔ کیا اس پہاڑ کی معدنیات میں سے  ان تین قسم کے لوگوں کو حصہ ملے گا یا نہیں؟

جواب

عام طور پر ہمارے بلاد میں عرف اور رواج میں یہ چلا آرہا ہے کہ جب کوئی خاندان  کوئی گاؤں وغیرہ آباد کرتا ہے تووہ گاؤں کے قریب واقع غیر آباد زمینوں کے  ایک حصے کو گاؤں کی  مشترکہ ضروریات و حاجات کے پیشِ نظر  گاؤں سے منسلک کردیتا ہے،اور اس تمام ملحَقہ حصے کو گاؤں کی مشترک ملکیت سمجھا جاتا ہے،اسی مشترکہ ملکیت کو "شاملات "کہا جاتا ہے،عموماً جو زمین شاملات کا حصہ قرار دی جاتی ہے وہ گاؤں کی آباد شدہ زمینوں کا دوگنایا تین گنا ہوتی ہے۔

شاملات کی زمین کسی کی ذاتی اور انفرادی ملکیت نہیں ہوسکتی، نہ کسی کے لیے اس کا  انفرادی مالک بننا یا ملکیت کا دعوی کرناجائز ہے،بلکہ وہ گاؤں کے تمام باشندوں کی  اجتماعی اور مشترکہ ملکیت ہوتی ہے، اور وہ زمین ان کے اجتماعی کاموں ،مصالح اور گاؤں والوں کی مشترک ضرورتوں مثلاً   چراگاہ اور ایندھن  وغیرہ  کے حاصل کرنے کے لیے   استعمال کی جاتی ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں یہ  جنگلات پورے گاؤں کی مشترکہ ملکیت ہیں اور ان جنگلات سے جتنے بھی مصالح اور فوائد حاصل ہوں ،وہ پورے گاؤں کے ہوں گے،لہذا جو لوگ بعد میں آباد ہوئے وہ بھی  اب اس گاؤں کے افراد ہیں اس لیے جنگلات کی معدنیات وغیرہ میں ان کا حصہ بھی ہو گا۔

درر الحکام شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"(المادة 1271) الأراضي القریبة من العمران تترک للأھالی مرعی ومحتصدا ومحتطبا ویقال لھا الأراضی المتروکة.

الأراضي القريبة من العمران أي الخارجة عن العمران أو القريبة منه تترك للأهالي على أن تتخذ مرعى أو بيدرا أو محتطبا ولا يعد انتفاع الأهالي منقطعا عن تلك الأراضي (الطوري). والمحلات التي يصل إليها صوت جهير الصوت عند صياحه من أقصى العمران تعد قريبة من العمران وحريما للعمران فلا تعد مواتا ولو لم يكن لها صاحب...  كما أن الأراضي الواقعة داخل العمران أي في داخل القصبة والقرية لا تعد مواتا وتدعى هذه الأراضي الأراضي المتروكة فلا يجوز إحياء هذه الأراضي ولا تمليكها لآخر لأنه إذا كان الناس يستعملونها في الحال فهم محتاجون إليها تحقيقا وإذا كانوا لا يستعملونها فهم محتاجون إليها تقديرا وهذه الأراضي هي كالطريق والنهر."

(الكتاب العاشر: الشركات،‌‌الباب الرابع في بيان شركة الإباحة،الفصل الخامس في إحياء الموات،المادة :279/3،1271،ط:دار الجیل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100892

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں