بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

امام کا ماہر قاری ہونا ضروری ہے یا قرآن کے احکام کو زیادہ جاننے والا ہونا؟


سوال

امام کے لیے کیا ضروری ہے؟ ماہر قاری ہونا یا زیادہ قرآن جاننے والا ہونا؟

جواب

واضح رہے کہ بنیادی طور پر امام کےلیے نماز سے متعلق بنیادی ضروری مسائل سے واقف ہونا، اور قراءت صحیح ہونا دونوں ضروری ہیں۔

البتہ اگر کہیں ایسی صورت پیش آجائے کہ جماعت کے افراد میں ایسا عالم موجود ہو جو جماعت کے افراد میں سے نماز کے مسائل کو سب سے زیادہ جاننے والا ہو،اور تلاوت درست کرسکتا ہو اور ساتھ میں اس جماعت میں ایسا شخص بھی موجود ہو جو قراءت میں اس عالم سے زیادہ ماہر ہو لیکن نماز کے مسائل کو اس سے زیادہ نہ جانتا ہو تو ایسی صورت میں وہ عالم امامت کرانے کا زیادہ حق دار ہے۔

نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ یہ اس صورت میں ہے جب مقرر امام یا اس کا نائب موجود نہ ہو، اگر مقرر امام یا اس کا نائب موجود ہو تو امامت کا حق دار وہ امام یا اس کا نائب ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والأحق بالإمامة) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر (الأعلم بأحكام الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات. والتقوى: اتقاء المحرمات (ثم الأسن) أي الأقدم إسلاما، فيقدم شاب على شيخ أسلم، وقالوا: يقدم الأقدم ورعا. وفي النهر عن الزاد: وعليه يقاس سائر الخصال، فيقال: يقدم أقدمهم علما ونحوه، وحينئذ فقلما يحتاج للقرعة (ثم الأحسن خلقا) بالضم ألفة بالناس (ثم الأحسن وجها) أي أكثرهم تهجدا؛ زاد في الزاد ثم أصبحهم: أي أسمحهم وجها، ثم أكثرهم حسبا (ثم الأشرف نسبا) زاد في البرهان: ثم الأحسن صوتا. وفي الأشباه قبيل ثمن المثل: ثم الأحسن زوجة. ثم الأكثر مالا، ثم الأكثر جاها (ثم الأنظف ثوبا) ثم الأكبر رأسا والأصغر عضوا، ثم المقيم على المسافر، ثم الحر الأصلي على العتيق. ثم المتيمم عن حدث على المتيمم عن جنابة.........(و) اعلم أن (صاحب البيت) ومثله إمام المسجد الراتب (أولى بالإمامة من غيره) مطلقا (إلا أن يكون معه سلطان أو قاض فيقدم عليه) لعموم ولايتهما."

(کتاب الصلاة، باب الإمامة، ج:1، ص:557، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144606100568

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں