بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

امام کا فارغ اوقات رکشہ چلا کر کمائی کرنا


سوال

 ہمارے یہاں ایک امام صاحب ہیں، جو مسجد میں نماز پڑھاتے ہیں اور خالی وقت میں مدرسے کے بچوں کو  رکشے سے لانا چھوڑنا کرتے ہیں، کیا امام صاحب کو یہ کام کرنا چاہیے، جب کہ وہ ایک امام ہیں؟

جواب

 مسجد کی کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ امام کے لیے معقول و مناسب تنخواہ مقرر کرے، جس سے وہ اپنی  ضروریات پوری کرسکے،اگر مسجد کے چندہ میں گنجائش کم ہو کہ اس سے مناسب تنخواہ مقررنہ کی جاسکتی ہو تو یہ سب   اہل محلہ کی اجتماعی ذمہ داری ہے،لہذااگرکسی امام کا اپنی تنخواہ میں گزارا نہ ہوتا ہو، جس کی وجہ سے وہ کوئی مناسب کام کرے اور اپنی  مسجد کی ذمہ داریوں میں خلل نہ آنے دے، تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے،لہذاصورتِ مسئولہ میں امام صاحب کا مسجد کی خدمت کے علاوہ دیگر   اوقات میں اپنے گزر بسر کے لیےرکشہ   چلا نے میں کوئی حرج نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و الأحقّ بالإمامة) تقدیمًا بل نصبًا مجمع الأنھر (الأعلم بأحکام الصلاۃ) فقط صحةً و فسادًا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، و قیل واجب، و قیل: سنة (ثم الأحسن تلاوۃ) و تجویدًا (للقراءۃ، ثم الأروع) أي: الأکثر اتقاء للشبھات."

 ( کتاب الصلاۃ، ‌‌باب الإمامة ، ج:1، ص:557، ط:سعید)

مشكاة المصابيح ميں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌طلب ‌كسب الحلال فريضة بعد الفريضة."

(کتاب البیوع، باب الكسب وطلب الحلال، رقم الحدیث :2781، ط:المكتب الإسلامي)

"ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا :" فرائض کے بعد کسب حلال کی تلاش بھی فرض ہے۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100117

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں