بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

امام کےپیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنے کا حکم


سوال

جب مقتدی امام کے پیچھے پہلی رکعت کے آخری مرحلے میں پہنچتا ہے، تو کیا اس کے لیے سورۃ فاتحہ کا پورا پڑھنا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جماعت سے نماز پڑھنے کی صورت میں امام کے پیچھے مقتدی کے لیے  کسی قسم کی  قراءت کرنا خواہ وہ سورۃ فاتحہ کی قراءت ہو یا کسی اور سورت کی، جائز  نہیں، نیز اس حکم میں سری اور جہری نمازوں میں کوئی فرق نہیں؛ کیوں کہ امام مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہے، یعنی امام کی نماز تمام مقتدیوں  کی نماز کو شامل ہوتی ہے، اور امام کی قراءت تمام مقتدیوں کی طرف سے کافی ہوتی ہے، مثلاً: اگر امام کا وضو نہ ہو تو تمام مقتدیوں کی نماز ادا نہیں ہوگی اگرچہ تمام مقتدی باوضو ہوں، اسی طرح امام سے سہو ہوجائے تو تمام مقتدیوں پر سجدہ سہو لازم ہوتاہے اگرچہ کسی مقتدی سے کوئی سہو نہ ہو،  اسی طرح اگر تمام مقتدیوں سے بھی سجدہ سہو واجب کرنے والی غلطی ہوجائے،  لیکن امام سے سہو نہ ہو تو مقتدیوں پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، بلکہ امام کی نماز صحیح ہونے کی وجہ سے ان کی نماز بھی صحیح ہوجاتی ہے؛  لہٰذاصورتِ مسئولہ میں  اگر کوئی شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو، اور پہلی رکعت کے آخری مرحلے میں پہنچے، تو اس کےلیے سورۃ الفاتحہ پڑھنا جائز نہیں ہے، خواہ نماز سری(جس میں قراءت آہستہ آواز سے کی جاتی ہو) ہویا جہری(جس میں امام بلند آواز سے قراءت کرتا ہے)، بلکہ امام کےساتھ نماز میں شامل ہوجائے، اور اپنی نماز کو جاری رکھے، امام کی قراءت اس کے لیے کافی ہے۔

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن جابر بن عبد الله قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم : من كان له إمام فقراءة الإمام له قراءة."

ترجمہ: ’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں : جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کی قرأت اس کی بھی قرأت ہے۔‘‘

( كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها،  باب إذا قرأ الإمام فأنصتوا، رقم: 850، ج:1، ص:277، ط:دار إحياء الكتب العربية)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن حیطان بن عبد الله الرقاشي قال: صليت مع أبي موسي الأشعري ... أن رسول الله صلي الله عليه وسلم خطبنا، فبين لنا سنتنا و علمنا صلواتنا فقال: إذا صليتم فأقيموا صفوفكم ثم ليؤمكم أحدكم؛ فإذا كبر فكبروا و إذا قرأ فأنصتوا... الحديث."

ترجمہ:’’ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ہمیں طریقہ بیان کیا اور ہمیں نماز سکھلائی کہ جب تم نماز ادا کرو تو اپنی صفوں کو درست کرو، پھر تم میں سے کوئی امامت کرائے، پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو بالکل خاموشی سے سنو۔۔۔ الخ۔‘‘

( كتاب الصلاة،  باب التشهد في الصلاة، رقم: 404، ج:1، ص:304، ط:دار إحياء التراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(والمؤتم لا يقرأ مطلقاً) ولا الفاتحة...( فإن قرأ كره تحريماً) و تصح في الأصح...الخ (باب صفة الصلاة، مطلب السنة تكون سنة عين و سنة كفاية."

(كتاب الصلاة، فصل في القراءة، ج: 1، ص: 544،  ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403102105

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں