1:اگر کوئی بندہ فرض نماز ادا کر لے بغیرجماعت کے اور پھر وہ بندہ فرض نمازجماعت کے ساتھ بھی ادا کر لے وہ(دوسری مرتبہ پڑھی جانےوالی ) نماز فرض ادا ہوگی یا نفل اور نیت کیسے باندھنی پڑے گی؟
2:نئے گھر میں منتقل ہونے کے لیے کون سا دن منتخب کرنا بہتر ہے، ذرا اس پر راہ نمائی کریں!
1:فرض ایک مرتبہ تنہا پڑھ لی تو فریضہ ادا ہوگیا، اب دوبارہ اسی فرض نماز کو جماعت میں شامل ہوکر ادا کرے گا تو اس کی یہ نماز نفل ہوگی،لہٰذا فجر و عصر اورمغرب میں ایسا کرنا درست نہیں کیوں کہ عصر اور فجر کی فرض نماز کے بعدطلوعِ آفتاب اور غروب آفتاب تک کوئی نفل نماز نہیں ہے اور تین رکعت کی نفل نہیں ہوتی، فجر ، عصر اور مغرب کے علاوہ میں کرسکتا ہے، لیکن بعد والی نماز اس کی نفل ہوگی، لہذا انفرادی طورپر ظہر یا عشاء پڑھنے کے بعد ظہر یا عشاء کی جماعت میں شامل ہونے کی صورت میں نمازی شخص نفل کی نیت(یعنی اپنےامام کی اقتداء میں نفل نماز پڑھنے کاپختہ ارادہ )کر کے شامل ہوگا۔
2:نئے گھر میں منتقل ہونے کے کاباقاعدہ کوئی مخصوص دن قرآن وحدیث میں وارد نہیں،لہذا کسی بھی دن نئے مکان میں منتقل ہوسکتے ہیں۔
العنایہ شرح الہدایہ میں ہے:
"(ومن صلى ركعة من الظهر ثم أقيمت يصلي أخرى) صيانة للمؤدى عن البطلان (ثم يدخل مع القوم) إحرازا لفضيلة الجماعة......................
(فإن صلى من الفجر ركعة ثم أقيمت يقطع ويدخل معهم) لأنه لو أضاف إليها أخرى تفوته الجماعة، وكذا إذا قام إلى الثانية قبل أن يقيدها بالسجدة، وبعد الإتمام لا يشرع في صلاة الإمام لكراهة التنفل بعد الفجر، وكذا بعد العصر لما قلنا، وكذا بعد المغرب في ظاهر الرواية لأن التنفل بالثلاث مكروه، وفي جعلها أربعا مخالفة لإمامه."
(كتاب الصلاة، باب إدراك الفريضة، 1/ 473-470، ط : دار الفکر)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ويكفيه مطلق النية للنفل والسنة والتراويح هو الصحيح.
...............ولو كان مقتديا ينوي ما ينوي المنفرد وينوي الاقتداء أيضا؛ لأن الاقتداء لا يجوز بدون النية. كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الصلاة، الباب الثالث في شروط الصلاة، الفصل الثالث في النية، 1/ 65-66، ط: دار الفكر)
فقط واللہ تعالی اعلم
فتوی نمبر : 144607102185
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن