ایک شخص کافی برسوں سے بیمار ہے، اس کی بیماری ڈاکٹروں کی سمجھ سے باہر ہے، رپورٹس بھی صاف ہیں ، سر میں شدید درد رہتا ہے،جسم میں آگ اُگلتی ہے، ڈراؤنے خواب کثرت سے دیکھتا ہے،ہر وقت پریشان رہتا ہے، عامل کہتے ہیں کہ جنا ت کا اثر ہے اور گھر میں جنات کا بسیرا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اسکے دماغ میں کوئی بیہودہ گالی دیتا ہے اور کوئی گانے گاتا ہے ،کثرت سے دینی کاموں میں رکاوٹ رہتی ہے،سوال یہ ہیکہ اس کو جنات پکڑ سکتے ہیں اور اس پر قابض ہو سکتے ہیں ؟اگر ہوسکتے ہیں تو عامل سے علاج کرانا چاہیے یا نہیں ؟ اور کیسے عامل سے علاج کرایا جائے ؟
اللہ تعالی نے جنات کو یہ قدرت عطا فرمائی ہے کہ وہ انسانی جسم پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، اور اس پر تصرف کر کے اپنے قابو میں بھی لاسکتے ہیں ،لہذا زیر ِ نظر مسئلہ میں اگر واقعۃ مذکورہ شخص پر جنات کے اثرات ہوں تو وہ پنج وقتہ نمازوں کا اورکثرت سے تلاوت و اذکار اوربالخصوص معوذتین (سورہ فلق،سورہ ناس) پڑھنے کا اہتمام کرے، اور جس قدر ہوسکے پاکی یعنی وضو کی حالت میں رہنے کی کوشش کرے،نیز سورہ بقرہ اور منزل معتدل آواز میں گھر پر پڑھے۔
سنن ِ نسائی میں ہے :
"أخبرنا أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب قال: أخبرنا عَمرو بنُ عليٍّ قال: حدَّثنا أبو عاصم قال: حدَّثنا ابن أبي ذئب قال: حدَّثني أَسيد بنُ أبي أَسيد، عن معاذ بن عبد الله عن أبيه قال: أصابَنا طَشٌّ وظُلمةٌ، فانتظَرْنا رسولَ الله صلى الله عليه وسلم ليُصلِّي بِنا، ثُمَّ ذكر كلامًا معناه: فخرجَ رسولُ الله صلى الله عليه وسلم ليُصلِّي بنا، فقال: "قل" - فقلت ما أقول؟ قال -: {قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ} والمُعوِّذَتَين، حين تُمسي، وحين تُصبح، ثلاثًا، يكفيكَ كلَّ شيء."
(كتاب الاستعاذة، ذكر أفضل ما تعوَّذ به المُتعوِّذون، ج : 8، ص : 450، رقم الحدیث : 5428، ط : دار الرسالة العلمیة)
التفسیر المنیر میں ہے :
"وهما المعوذتان ما يستعاذ منه بالله من الشر الذي في العالم، ومراتب مخلوقاته الذين يصدون عن توحيد الله، كالمشركين وسائر شياطين الإنس والجن، وقد ابتدأ في هذه السورة بالاستعاذة من شر المخلوقات، وظلمة الليل، والسحرة، والحسّاد، ثم ذكر في سورة الناس الاستعاذة من شر شياطين الإنس والجن."
(سورة الفلق، ج : 30، ص : 470/469، ط : دار الفکر بیروت)
دلائل النبوۃ للبیھقی میں ہے :
"حدثنا أبی خالد بن أبی دجانۃؓ، قال: سمعت أبی أبا دجانۃؓ یقول:شکوت إلٰی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقلت: یا رسول اللّٰہ! بینما أنا مضطجع فی فراشی، إذ سمعت فی داری صریرًا کصریر الرحی، ودویًا کدوی النحل، ولمعًا کلمع البرق، فرفعت رأسی فزعًا مرعوبًا............ وقال: اکتب یا أبا الحسن ! فقال: وما أکتب؟ قال: اکتب:’’ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ ہٰذا کتاب من محمد رسول رب العالمین صلی اللّٰہ علیہ وسلم، إلی من طرق الدار من العمار، والزوار، والصالحین، إلا طارقًا یطرق بخیر یا رحمٰن ! أما بعد: فإن لنا، ولکم فی الحق سعۃً، فإن تک عاشقًا مولعًا، أو فاجرًا مقتحمًا أو راغبًا حقًا أو مبطلاً، ہٰذا کتاب اللّٰہ تبارک وتعالٰی ینطق علینا وعلیکم بالحق، إنا کنا نستنسخ ما کنتم تعملون، ورسلنا یکتبون ما تمکرون، اترکوا صاحبَ کتابی ہذا، وانطلقوا إلی عبدۃ الأصنام، وإلی من یزعم أن مع اللّٰہ إلٰہًا آخر۔ لا إلٰہ إلا ہو کل شیء ہالک إلا وجہہٗ لہ الحکم وإلیہ ترجعون۔ یغلبون حم لا ینصرون، حٰمٓ عٓسٓقٓ، تفرق أعداء اللّٰہ، وبلغت حجۃ اللّٰہ، ولا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ فسیکفیکہم اللّٰہ وہو السمیع العلیم ‘‘......... الخ
(جماع أبواب كيفية نزول الوحي على رسول الله صلى الله عليه وسلم......، باب ما يذكر من حرز أبي دجانة، ج : 7، ص : 119/118، ط : دار الکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101293
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن