بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

کافر گھر میں پیدا ہوکر کفر پر انتقال کرنے کی صورت میں بھی جہنم میں جائے گا؟


سوال

انسان کی پیدائش اللہ تعالیٰ کے حکم و منشا سے ہوتی ہے ،ایک غیر مسلم خاندان میں پیدا ہونے والے انسان کا غیر مسلم ہی مر جانے میں اس کا اپنا کیا قصور ہے؟ کیا اس کا جہنم میں چلے جانا اس کے ساتھ انصاف ہوگا؟

جواب

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو مجبورِ محض نہیں بنایا ، بلکہ اس میں خیر اور شر قبول کرنے کی صلاحیت رکھی ہے، اور عقل وادراک عطا فرمایا ہے، اور انسان کے سامنے ہدایت، حق اور توحید کے تمام دلائل رکھ دیے، اور اس انسان کو حق اور ہدایت اختیار کرنے کا حکم دیا، باطل سے اجتناب کا حکم دیا، پس اگر کوئی شخص معاذ اللہ گمراہی والے راستہ کو اختیار کرے تو اس نے اپنی مرضی سے کفر اور شرک کے راستے کو اختیار کیا، جس پے آخرت میں اس کی پکڑ ہوگی۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

"وَ هَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ" (سورة البلد، الأية:10)

”ترجمہ:اور (پھر) ہم نے اس کو دونوں رستے (خیر و شر کے) بتلا دیے۔“

اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:

”تیسری چیز دو راستوں کی ہدایت ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو خیر و شر اور بھلے برے کی پہچان کے لیے ایک استعداد اور مادہ خود اسکے وجود میں رکھ دیا ہے،  جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا فا لَهَمَهَا فجُورَهَا وَ تَقوْهَا یعنی نفسِ انسانی کے اندر اللہ تعالیٰ نے فجور اور تقو یٰ سے دونوں کے مادے رکھے ہیں تو اس طرح ایک ابتدائی ہدایت انسان کو خود اس کے ضمیر سے ملتی ہے،  پھر اس ہدایت کی تائید کے لئے انبیاء علیہم السلام اور آسمانی کتا بیں آتی ہیں جو ان کو بالکل واضح کر دیتی ہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ جاہل اور غافل انسان قدرت حق کے منکر ذرا اپنے ہی وجود کی چند نمایاں چیزوں میں غور کرے تو قدرت و حکمت حق کے کمال کا مشاہدہ ہو جائے گا ۔ آنکھوں سے دیکھو پھر زبان سے اقرار کرو پھر دور استوں میں سے خیر کے راستے کو اختیار کرو ۔“

آیتِ مبارکہ سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کے لیے دونوں راستیں کھول دیے ہیں، اور دونوں میں سے کسی ایک کو بھی اختیار کرنے کا مادہ رکھا ہے، پھر اسی اختیاری انتخاب اور پھر اس کے مطابق زندگی گزارنے کے نتیجے میں جزا وسزا کا نظام قائم کیاہے۔ راہِ راست کے انتخاب کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کا سب سے بڑا عطیہ انسان کی عقل سلیم ہے، انسانی عقل کو درست سمت میں رواں رکھنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں جابجا اپنی قدرت کے مظاہر پھیلادیے ہیں، جو قدم قدم پر اپنی طرف متوجہ کرکے انسان کو وحدہ لاشریک ذات کی طرف کھینچتے ہیں، اور انسان کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کس سمت میں جارہاہے۔

بہر حال انسان کا کسی خاص گھرانے یا خاص ملک میں پیدا ہوجانا اسے مجبور نہیں کرتا کہ وہ اپنی عقل کو استعمال نہ کرے، اسے یوں سمجھیے کہ ایک گھر کی طرح پورا ملک بھی ہے، ایک ملک میں رہنے والے لوگ گویا ایک گھرانے کے مثل ہیں، اب اگر عقل کا یہی پیمانہ مقرر ہو کہ کسی گھرانے میں پیدا ہونے والا وہی مذہب اختیار کرے جو اس گھر میں پہلے سے موجود ہے، تو کوئی ملک (مثلاً: یہودی، عیسائی یا اسلامی ملک) یہ قانون بھی بنا سکتاہے کہ جو شخص اس ملک میں پیدا ہوگا وہ اس ملک کا مذہب اختیار کرنے کا پابند ہوگا ؛ کیوں کہ وہ اس ملک میں پیدا ہوا ہے جہاں کا مذہب فلاں ہے!! ظاہر ہے کوئی صاحبِ عقلِ سلیم اسے معیار تسلیم نہیں  کرے گا؛ بلکہ انصاف پسند شخص یہی کہے گا کہ جو مذہب حق ہو اسے اختیار کیا جائے، خواہ کسی بھی ملک میں آبادہو۔ اسی طرح کسی خاص گھرانے میں پیدا ہونا انسان کو مجبور نہیں کرتا کہ وہ ناحق مذہب کو اختیار کرے جو وہاں موجود ہے۔ بلکہ انسانی عقل اسے حق کا طالب بناتی ہے، اور اسلام کی حقانیت (اللہ تعالیٰ کی توحید، عقیدہ آخرت اور انبیاء کرام علیہم السلام کی رسالت) پر کافی وشافی عقلی ونقلی دلائل قائم ہوچکے ہیں، کائنات کا ذرہ ذرہ وجودِ باری تعالیٰ اور وحدتِ باری تعالیٰ کی شہادت دے رہاہے۔

اس لیے یہ بات کہنا کہ کسی شخص کا غیر مسلم خاندان میں پیدا ہونا اور غیر مسلم ہی مرجانے میں اس کا کوئی قصور نہیں، بالکل ہی غیر عقلی بات ہے، کیوں کہ اللہ تعالی نے ہر شخص میں پیدائیشی طور پر اسلام قبول کرنے کی استعداد پیدا کردی ہے، اور  مذکورہ شخص کو بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت (عقل) کو درست سمت میں استعمال کرے، آپ اسے دین کی باتیں مثبت انداز میں پیش کریں، اور اسلامی اخلاق اختیار کرکے متاثر کریں، تبلیغِ دین اور دوسروں کی اصلاح کے لیے سب سے بنیادی چیز اور کارگر نسخہ یہی ہے کہ داعی اور مبلغ خود باعمل وباکردار ہو، ہم خود اسلامی اخلاق و احکام کے پابند ہوجائیں تو امید ہے کہ بہت سے غیر مسلم ہمیں دیکھ کر ہی اسلام قبول کرلیں۔نیز آپ اسے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تم پابندی کے ساتھ کثرت سے یہ دعا مانگنا شروع کردو : ' اے اللہ اسلام اور ہندومت میں سے جو مذہب آپ کے ہاں حق ہے اس کی حقانیت آپ میرے دل میں ڈال دیجیے، اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائیے!' اگر وہ صدقِ دل سے یہ دعا مانگے گا تو ان شاء اللہ اسے ضرور ہدایت نصیب ہوجائے گی۔

بہرحال مذکورہ جواب تو معقولی ہے جو ایک غیر مسلم کی فہمائش کے لیے بیان کیا جاسکتاہے، ایک مسلمان جو احادیث مقدسہ پر ایمان رکھتاہے اس کے لیے رسول اللہ ﷺ نے اپنے فرامین میں اس طرح کے مواقع کے لیے واضح ہدایت اور قطعی جواب ارشاد فرمایاہے، چناں چہ جامع ترمذی اور بخاری شریف کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر پیدا ہونے والابچہ ملتِ اسلامیہ پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مشرک بنا دیتے ہیں، عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ﷺ جو بچے جوان ہونے سے پہلے فوت ہوگئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ وہ اگر بڑے ہوتے تو کیا کرتے۔
نیز  مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : 'اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ہے کہ میں نے تمام بندوں کو دینِ  حنیف ہی پر پیدا کیاہے پھر اُن کوشیاطین گھیر لیتے ہیں اور دینِ  فطرت سے اُن کوبہکا دیتے ہیں اور وہ چیزیں اُن پر حرام کرڈالتے ہیں جو میں نے اُن کے لیے حلال کی تھیں۔' 
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نےہر انسان کے دل میں ایمان کا تخم رکھا ہے، اب اگر وہ گردوپیش کے ماحول سےمتاثرنہ ہو، بلکہ صحیح راستے اور صراطِ مستقیم کی طلب میں لگ جائے تو اسے ایمان و ہدایت کی دولت  ضرور نصیب ہوگی، ہندو کے گھر میں پیدا  ہونے سے یہ  صلاحیت ختم نہ ہوگی ۔فقط واللہ اعلم

ارشاد باری تعالی ہے:

"فطرت الله التي فطر الناس عليها..... ذلك الدين القيم ولكن اكثر الناس لايعلمون."

ترجمہ: "پس آپ یکسو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کردیں اللہ تعالی کی وہ فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ تعالی کے بنائے ہوئے کو بدلنا نہیں یہی دین سیدھا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے"(سورۃ الروم، الآية: 30 )

ارشاد باری تعالی ہے:

"وَمَاْكُنَّاْ بِمُعَذِّبِيْنَ حَتّى نَبْعَثَ رَسُوْلاً."

ترجمہ:"اور ہم کسی کو اس وقت تک عذاب نہیں دیتے جب تک کہ رسول نہ بھیج دیں"(سورة الإسراء، الآية 16)

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم (‌كل ‌مولود ‌يولد ‌على ‌الفطرة، فأبواه يهودانه، أو ينصرانه، أو يمجسانه، كمثل البهيمة تنتج البهيمة، هل ترى فيها جدعاء."

(صحيح البخاري، كتاب الجنائز، باب ما قيل في أولاد المشركين، ج: 1 ص: 465 رقم: 1319 ط: دار ابن كثير)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604102142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں