بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

انسان کی تخلیق منی سے ہونے کے باوجود انسان پاک ہے


سوال

اگر مذی اور منی دونوں ناپاک ہیں تو اس سے پیدا ہونے والا انسان پاک کیسے ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جب کسی چیز کی ماہیت  اور حقیقت بدل جاتی ہے، تو اس کا حکم بھی بدل جاتا ہے اور ناپاک پاک بھی ہوجاتا ہے، مثلاً شراب حرام اور ناپاک ہے، اگر اس کو سرکہ بنا لیا گیا، تو وہ حلال ہوجائے گا اور پاک بھی، اسی طرح منی کی حقیقت بدل کر جب وہ گوشت پوست اور ہڈی وغیرہ بن جاتی ہے، تو وہ پاک ہوجاتی ہے، انسان کی تخلیق اگرچہ منی سے ہوئی ہے، لیکن منی سے پیدا ہونا یہ انسان کی تخلیق کا  ابتدائی مرحلہ ہے، اس کے بعد انسان کی تخلیق کئی مراحل پر مشتمل ہے،  جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: 

قرآن کریم میں ہے:

"وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ (12) ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ (13) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ ۚ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (14)." [سورة المؤمنون: 12، 13، 14]

ترجمہ: 

"اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ (یعنی غذا) سے بنایا، پھر ہم نے اس کو نطفہ سے بنایا جو کہ (ایک مدت معینہ تک) ایک محفوظ مقام (یعنی رحم) میں رہا، پھر ہم نے ان نطفہ کو خون کا لوتھڑا بنادیا، پھر ہم نے اس خون  کے لوتھڑے کو (گوشت) کی بوٹی بنادیا، پھر ہم نے اس بوٹی (کے بعض اجزا کو ہڈیاں بنادیا، پھر ہم نے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھادیا، پھر  ہم نے (اس میں روح ڈال کر) اس کو ایک دوسری ہی (طرح) کی مخلوق بنادیا، سو کیسی بڑی شان ہے اللہ کی، جو تمام صناعوں سے بڑھ کر ہے۔" (بیان القرآن)

لہٰذا جب انسان کی پیدائش مکمل ہونے کے بعد اس منی (جو کہ ناپاک تھی) کی ماہیت ہی بدل گئی، تو اب انسان ناپاک نہیں رہا، ورنہ انسان کے ساتھ لگنے سے ناپاک ہوجاتا۔

عنایہ شرح الہدایہ میں ہے:

"قوله وقال الشافعي: ‌المني ‌طاهر) تمسك هو أيضا بالحديث الأول، فلو كان نجسا لم يكتف بفركه، وبما عن ابن عباس عنه - صلى الله عليه وسلم - «أنه سئل عن ‌المني يصيب الثوب فقال: إنما هو بمنزلة المخاط أو البزاق، وقال: إنما يكفيك أن تمسحه بخرقة أو إذخرة» قال الدارقطني: لم يرفعه غير إسحاق الأزرق عن شريك القاضي، ورواه البيهقي من طريق الشافعي موقوفا على ابن عباس قال هذا هو الصحيح، وقد روي عن شريك عن ابن أبي ليلى عن عطاء مرفوعا ولا يثبت اهـ. لكن قال ابن الجوزي في التحقيق: إسحاق الأزرق إمام مخرج له في الصحيحين ورفعه زيادة وهي من الثقة مقبولة ولأنه مبدأ خلق الإنسان وهو مكرم فلا يكون أصله نجسا، وهذا ممنوع فإن تكريمه يحصل بعد تطويره الأطوار المعلومة من المائية والمضغية والعلقية، ألا يرى أن العلقة نجسة، وأن نفس المني أصله دم فيصدق أن أصل الإنسان دم وهو نجس."

(كتاب الطهارات، ج:1، ص:197، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101080

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں