بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

انشورنس کروانا کیسا ہے؟


سوال

انشورنس کرواناکیساہے؟

جواب

انشورنس کی مروجہ اکثرصورتیں مندرجہ ذیل مفاسدپرمشتمل ہونے کی وجہ سےحرام وناجائزہیں:

1.سود۔۔۔۔سوداس طورپرہےکہ انشورنس کرانےوالا( پالیسی ہولڈر)جوقسط کےطوپرمقررہ رقم انشورنس کمپنی /فردکےپاس  جمع کراتارہتاہےحادثےیاموت واقع ہونے کی صورت میں کمپنی اصل رقم پراضافی رقم دیتی ہےجوکہ سودہے۔

2.جوا۔۔۔۔جوااس طورپرہے کہ انشورنس کرانےوالااپنی رقم داؤپرلگاتاہےیعنی یہ احتمال بھی ہوتاہےکہ اصل رقم پراضافہ مل جائےاوریہ بھی احتمال رہتاہےکہ اصل مال ہی ڈوب جائے۔

3.دھوکہ۔۔ انشورنس کاعقدانجام کےاعتبارسےغیریقینی ہوتاہےیعنی صورت حال واضح نہیں ہوتی کہ اس معاملہ کاانجام کیاہوگا۔

سوداورجواکی حرمت توقرآن مجیدکی واضح آیات سےثابت ہےاوردھوکا  دہی  سے   حضور ﷺ نے منع فرمایاہےاوردھوکا  دینےوالےکےبارےمیں حدیث میں سخت وعیدآئی ہے۔

قرآن مجیدمیں ہے:

"وَأَحَلَّ ٱللَّهُ ٱلْبَيْعَ وَحَرَّمَ ٱلرِّبَوٰاْۚ"( سورة البقرة،الآية:275)

ترجمہ:حالانکہ اللہ تعالیٰ نےبیع کوحلال فرمایاہے اورسودکوحرام کردیاہے(ازبیان القرآن للتھانویؒ)

وفیہ ایضا:

"إِنَّمَا ٱلْخَمْرُ وَٱلْمَيْسِرُ وَٱلْأَنصَابُ وَٱلْأَزْلٰمُ رِجْس مِّنْ عَمَلِ ٱلشَّيطٰنِ فَٱجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"(سورة المائدة ،الآية:90 )   

ترجمہ:بات یہی ہےکہ شراب اورجوااوربت وغیرہ اورقرعہ کےتیریہ سب گندی باتیں ہیں شیطانی کام ہیں سوان سےبالکل الگ رہوتاکہ تم فلاح ہو(ازبیان القرآن للتھانویؒ)

احکام القرآن للجصاصؒ میں ہے:

"وقال قوم من أهل العلم: "‌القمار كله من الميسر".

(سورة المائدة،مطب في تأويل ماوردعنه صلي الله عليه وسلم من انه قطع يدامرأة،ج:2،ص:582،ط:دارالكتب العلمية)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن جابر قال: « ‌لعن ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم ‌آكل ‌الربا ومؤكله، وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء »".

(كتاب البيوع،باب لعن آكل الرباومؤكله،ج:5،ص:50،ط:دارالطباعة العامرة تركيا)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن أبي هريرةقال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم برجل يبيع طعاما، فأدخل يده فيه فإذا هو مغشوش، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا من غش»".

(كتاب التجارات،باب:النهي عن الغش،ج:2،ص:749،ط:داراحياءالكتب العربية)

المبسوط میں ہے:

"قال: (ولا يجوز شراء اللبن في الضرع كيلا ولا مجازفة بدراهم أو غير ذلك) لنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن الغرروهوما ‌يكون ‌مستور ‌العاقبة".

(كتاب البيوع،باب انواع الربا،ج:12،ص:193،ط:دارالسعادة)

البھرالرائق میں ہے:

"قال رحمه الله (وحرم شرط الجعل من الجانبين لا من أحد الجانبين)..ومعنى شرط الجعل من الجانبين أن يقول إن سبق فرسك فلك علي كذا، وإن سبق فرسي فلي عليك كذا وهو قمار فلا يجوز؛ لأن القمار من القمر الذي يزاد تارة وينقص أخرى وسمي القمار قمارا؛ لأن كل واحد من القمارين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه ويجوز أن يستفيد مال صاحبه فيجوز الازدياد والنقصان في كل واحدة منهما فصار ذلك قمارا وهو حرام بالنص".

(مسائل شتي،مسائل في المسابقة والقمار،ج:8،ص:554،ط:دارالكتاب الاسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100665

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں