بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 ذو الحجة 1445ھ 03 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

انتخابات کے دوران امیدوار کی جانب سے ووٹ کے حصول کے لئے رقم تقسیم کرنے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں اپنے علاقے کے مفاد کے  لیے ایک سیاسی جماعت  کے بندے کو  ووٹ دے رہے ہیں اور اس سے ایڈوانس روپے لے رہے ہیں اوراپنے علاقے کے  لیے سولر سسٹم کے ذریعے پانی لا رہے ہیں؛ کیوں کہ  ہمارے علاقے میں پانی کی کافی قلت ہے۔کیا ازروئے شریعت ووٹ کے  لیے پیسہ لینا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی حلقہ سے منتخب نمائندہ کی شرعی   حیثیت اپنے  حلقہ کی عوام کے خادم و نمائندہ کی ہوتی ہے، جس کی شرعی و قانونی  ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے حلقہ کے مسائل حل کروائے،  البتہ نمائندہ منتخب ہونے سے قبل  انتخابات میں کھڑے شخص کی حیثیت محض امیدوار کی ہوتی ہے، اور ہر حلقہ کی عوام کو کلی اختیار ہوتا ہے کے اپنے حلقہ میں کھڑے امیدواروں میں سے  ایسے شخص کو  اپنے ووٹوں کے ذریعہ منتخب کرے جو اس حقہ کی عوام کے ساتھ مخلص ہو، اور ان کے مسائل حل کرنے اور کروانے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔

پس  صورتِ  مسئولہ میں انتخاب سے قبل ووٹ کے حصول کے نام پر عوام کو رقوم  دینا  اور عوام کا وصول کرنا رشوت کے زمرے میں داخل ہونے ساتھ ساتھ غیر منصفانہ  رائے دہی، اور اہل شخص کو چھوڑ کر نا اہل کو منتخب کرانے کا ذریعہ ہے، کیوں پیسہ وصول کرنے والے افراد کی نگاہ   ووٹ ڈالتے  وقت اجتماعی مفاد پر نہیں ہوتی،  جوکہ ذاتی مفادات کو انفرادی  مفادات پر فوقیت دینے کو مستلزم ہوتا ہے ،اور یہ  حق رائے دہی ( ووٹنگ ) کے مقصد کے خلاف ہے،  پس مسئولہ صورت میں   مذکورہ رقم پیشگی وصول کرنا اگرچہ علاقائی ترقی کے نام پر ہے، تاہم ووٹ کے عوض ایسا کرنا رشوت کے زمرے میں داخل ہے، جوکہ حرام ہے،لہذا ایسے فرد کا انتخاب کیا جائے، جو واقعةً اہل ہو، اور اس کا کردار صاف ہو، علاقائی ترقی میں کردار ادا کرنے کا نا صرف اہل ہو، بلکہ ماضی میں بھی کردار  ادا کرتا رہا ہو۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"٣٧٥٣ - وعن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، قال: «لعن رسول الله الراشي والمرتشي» رواه أبو داود، وابن ماجه.

أي: معطي الرشوة وآخذها، وهى الوصلة إلى الحاجة بالمصانعة، وأصله من الرشاء الذي يتوصل به إلى الماء، قيل: الرشوة ما يعطى لإبطال حق، أو لإحقاق باطل، أما إذا أعطى ليتوصل به إلى حق، أو ليدفع به عن نفسه ظلما فلا بأس به، وكذا الآخذ إذا أخذ ليسعى في إصابة صاحب الحق فلا بأس به، لكن هذا ينبغي أن يكون في غير القضاة والولاة ; لأن السعي في إصابة الحق إلى مستحقه، ودفع الظالم عن المظلوم واجب عليهم، فلا يجوز لهم الأخذ عليه، كذا ذكره ابن الملك، وهو مأخوذ من كلام الخطابي إلا قوله: وكذا الآخذ، وهو بظاهره ينافيه الحديث الأول من الفصل الثالث الآتي. قال التوربشتي: وروي أن ابن مسعود أخذ في شيء بأرض الحبشة فأعطى دينارين حتى خلي سبيله."

( كتاب الإمارة والقضاء، باب رزق الولاة وهداياهم، ٦ / ٢٤٣٧، ط: دار الفكر، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102234

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں