بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اقالہ کرنے کی صورت میں زکوہ کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کے پاس ایک کروڑ کی مالیت ہے، سال مکمل ہونے سے ایک مہینہ پہلے اس نے ایک گاڑی ۴۰ لاکھ کی ضرورت کی خاطر لے لی، اس سے کل مالیت ۶۰ لاکھ ہوگئی ، اب جب سال پورا ہوا تو اس نے ۶۰ لاکھ کی مالیت  کی زکات ادا کردی، اس کے دو ماہ بعد زید نے گاڑی کے سودے کا اقالہ کیا اور کل ۴۰ لاکھ کی رقم اس کے پاس واپس آئی ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا زید پر اس ۴۰ لاکھ کی (جو اقالہ کے بعد واپس آئی) زکات ہے یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں جب سال مکمل ہونے سے قبل زید نے ذاتی  استعمال کے لیے۴۰ لاکھ کی گاڑی خرید لی تھی اور زید کی ملکیت میں  سال مکمل ہونے کے وقت صرف ۶۰ لاکھ روپے نقدی تھی تو زید پر ۶۰ لاکھ کی زکوۃ ہی واجب تھی جو اس نے ادا کردی۔ سال مکمل ہونے کے بعد گاڑی کا اقالہ کرنے کی صورت میں جو ۴۰ لاکھ زید کی ملکیت میں دوبارہ آگئے تو اس سے حکم پر فرق نہیں پڑے گا، اور مزید زکاۃ لازم نہیں، کیونکہ زکوۃ کے باب میں سال مکمل ہوتے وقت جو چیز ملکیت میں ہو اس کا اعتبار ہوتا ہے، بعد میں جو چیز ملکیت میں آئے اس کا اعتبار نہیں ہوتا اور اقالہ خریدار اور بیچنے والے کے حق میں تو فسخ ہے لیکن ان دونوں کے غیرکے حق میں بیع جدید اور شریعت کا حق بھی ان کا غیر ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها حولان الحول على المال) العبرة في الزكاة للحول القمري كذا في القنية، وإذا كان النصاب كاملا في طرفي الحول فنقصانه فيما بين ذلك لا يسقط الزكاة كذا في الهداية. ولو استبدل مال التجارة أو النقدين بجنسها أو بغير جنسها لا ينقطع حكم الحول، ولو استبدل السائمة بجنسها أو بغير جنسها ينقطع حكم الحول كذا في محيط السرخسي.

ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه المستفاد من نمائه أولا وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك."

(کتاب الزکوۃ، باب ثانی، فصل اول، ج نمبر ۱، ص نمبر ۱۷۵، دار الفکر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) تقابض بدلي الصرف في إقالة الصرف، وهذا على أصل أبي يوسف ظاهر، وكذلك على أصل أبي حنيفة؛ لأن قبض البدلين إنما، وجب حقا لله تعالى ألا ترى أنه لا يسقط بإسقاط العبد، والإقالة على أصله، وإن كانت فسخا في حق العاقدين، فهي بيع جديد في حق ثالث فكان حق الشرع في حكم ثالث فيجعل بيعا في حقه."

(کتاب البیوع، فصل فی بیان ما یرفع حکم البیع، ج نمبر ۵، ص نمبر ۳۰۸، دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102010

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں